سعودی عرب میں روزگار کی غرض سے 25 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں، اس لحاظ سے سعودیہ کو بلاشبہ منی پاکستان کہا جا سکتا ہے۔ تاہم گزشتہ دو سالوں کے دوران سعودائزیشن پالیسی پر عمل درآمد کے باعث دیگر تارکین کی طرح پاکستانی تارکین کی تعداد میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ سعودی حکومت نے کئی پیشوں میں سو فیصد سعودائزیشن نافذ کر کے وہاں سے تمام غیر مُلکی نکال کر اُن کی جگہ مقامی نوجوان مرد و خواتین بھرتی کر لیے ہیں۔
جبکہ کچھ پیشوں میں جزوی سعودائزیشن ہوئی ہے۔ سعودی حکومت کے نئے فیصلے نے اب لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سعودی اخبار الوطن کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ حکام نے عندیہ دیا ہے کہ مزید پیشوں میں بھی سعودائزیشن کا نفاذ کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے اگلے دو ماہ کے اندر ایسے تمام پیشوں کی فہرست طلب کی گئی ہے جہاں پرسعودیوں کی گنتی بہت کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
اخبار کے مطابق ان پیشوں میں حجام، قصاب، صفائی کارکنان، پلمبرز،درزی، الیکٹریشن،لوہار،ٹرکوں اورہیوی مشینری کے ڈرائیور، معمار، کھالوں کی صفائی، پینٹر، مکینیک، گاڑیوں کی اصلاح و مرمت، کھیتی باڑی، اے سی کی اصلاح و مرمت، سڑکوں کی اصلاح و مرمت، سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ، لانڈری، گاڑی کی صفائی اور سیوریج کا شعبہ شامل ہے۔سعودی مملکت میں لاکھوں پاکستانی ان چھوٹے چھوٹے پیشوں سے جُڑے ہیں۔
اگر یہاں پر بھی سعودائزیشن کا نفاذ ہو گیا تو اگلے چند سالوں میں مزید لاکھوں پاکستانی بے روزگار ہو کر وطن واپس آ جائیں گے۔ وزارت محنت و سماجی بہبود کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ان مذکورہ شعبوں میں غیر مُلکیوں کی جگہ سعودیوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں، تاہم فی الحال یہ تفصیلات طے کرنا باقی ہیں کہ کن کن شعبوں میں سعودائزیشن کی کیا شرح مقرر کی جائے گی۔
پہلے تو اس حوالے سے رپورٹ تیار کی جائے گی کہ مارکیٹ میں کن پیشوں میں کتنے غیر مُلکی کارکن براجمان ہیں اور مملکت میں ایسے ہُنر مند سعودیوں کی تعداد کیا ہے جو ملازمت نہ ہونے کے باعث مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک جامع منصوبہ تیار کر کے سعودائزیشن کا نفاذ کیا جائے گا۔