کوٹ ادو۔۔ محکمہ تعلیم میں کرپشن ……………. قانون کی دھجیاں اڑا دی گئیں
۔محکمہ تعلیم میں ڈپٹی ڈی ای او زنانہ کو اپنی آبائی تحصیل میں تعینات کرا دیا گیا
۔قانون کے مطابق کوئی ڈپٹی ڈی ای او اپنی تحصیل میں تعینات نہیں ہو سکتی۔شہری محمد عثمان کی حکام بالا کو نوٹس لینے کیلیے تحریری درخواست ارسال
موصوفہ کو قانون شکنی کا اتنا شوق ہے کہ ان کی سرکاری گاڑی ان کے شوہر کے استعمال میں ہوتی ہے جب کہ ان کے آنے جانے اور تحصیل بھر کے سکول وزٹ کرنے کی زمہ داری اے ای اوز بیچارے پوری کرتے ہیں ہر ایک کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مرکز کے سکول وزٹ کروانے کیلیے ڈپٹی صاحبہ کیلیے گاڑی کا انتظام کریں۔ ۔۔اے ای اوز کو اپنی نوکری بچانے کے لیے کبھی کبھار دعوت کا انتظام کر کے متعلقہ آفیسر کے گھر پہچانی پڑتی ہے ، مرتے کیا نہ کرتے والی بات اے ای او کو اس پر اکتفا نی کرنا پڑتا کبھی کبھی تو آموں کی پیٹیاں اور دوپہر کا کھانا گھر پہچانے کی زمہ داری بھی ان پر عائد کی جاتی ہے
ڈپٹی ڈی ای او نے درجہ چہارم کے ملازم غلام قادر اور وزیراں بی بی کو ذاتی ملازم بنا لیاان کی ڈیوٹی دفتر کی بجائے اپنے گھر پر لگا دی دونوں ملازم صبح سے شام تک ان کے گھر کا کام کرتے ہیں۔
ڈپٹی موصوفہ نے بہائوالدین ذکریا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا ہوا ہے جسکی محکمہ سے کوئی اجازت نہیں لی ہوئی اور دفتر ٹائم میں کلاس اٹینڈ کرنے چلی جاتی ہیں ۔
۔موصوفہ کرپشن میں اتنی ماہر ہیں کہ ڈپٹی ڈی او ایجوکیشن کی نئی عمارت کے اے سی اپنے خاوند کی دوکان سے دگنی قیمت میں خرید کر لگائے گئے جن میں کچھ اے سی چند دن بعد دوبارہ خراب ہوگئے جن کو پھر دگنی قیمت پر لگایا گیاجبکہ پرانے اے سی موصوفہ کے گھر پہنچادییے گئے اور محمکہ کو کرپشن کا ٹیکا لگا دیا گیا زرائع
موصوفہ سے تنگ تمام اے ای اوز ڈپٹی ڈی ای او کے ظلم کے خلاف پھٹ پڑے
ہماری آدھی تنخواہ آفیسر کے خرچے پورے کرنے میں لگ جاتی ہے
شہری محمد عثمان نے سیکرٹری تعلیم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو درخواست ارسال کردی جس میں فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور متعلقہ ڈپٹی ڈی ای او کی اپنے ہی آبائی شہر میں غیر قانونی تعیناتی کو فی الفور معطل کرکے تبادلہ اور محکمانہ کارروائی کا مطالبہ کیا ہے