نہ ڈیل نہ ڈھیل اور نہ کچھ اور ۔۔۔۔۔ نواز شریف اور مریم نواز و کیپٹن صفدر کی رہائی کے پیچھے کس کا ہاتھ نکلا ؟ یہ خبر پڑھ کر آپ بھی تائید کریں گے
تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر 69جبکہ مریم کے خاوند کیپٹن صفدر 74دن پابند سلاسل رہنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کے بعد رہائی پا چکے ہیں۔ میاں نوازشریف مریم نواز اور صفدر کی رہائی پر مختلف انداز
صف اول کے کالم نگار میاں اشفاق انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ میں تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن لارڈ نذیرکا کہنا ہے ثابت ہو گیا عدلیہ آزاد ہے اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین کا کہنا ہے۔ میاں نوازشریف کی رہائی یقینی تھی کیونکہ ان کوگرفتار کرکے جو حاصل کرنا تھا وہ حاصل ہو چکا ہے۔ عارضی سے مستقل رہائی ہونا خدشہ ہے۔ صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہبازشریف کا کہنا ہے حق آ گیا باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے کے لئے ہی ہے۔خواجہ آصف کا کہنا ہے انصاف کی فتح ہوئی اللہ کا شکر ہے احسن اقبال کا کہنا ہے اندھے شخص کو بھی نظر آ گیا۔آئین اور قانون کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ انتقامی کارروائی تھی۔ سابق گورنر محمد زبیر کا کہنا ہے۔ دیر آئے درست آئے۔ پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کا کہنا ہے ۔ریلیف ملنا اچھی بات ہے۔ قمر زماں کائرہ کا کہنا ہے۔ میاں نواز شریف کو ہمیشہ ہی ریلیف ملتا رہا ہے۔ صحافی حضرات کا کہنا ہے وقتی ریلیف ہے۔ مشکلات ختم نہیں ہوئیں سکھ کا سانس وقتی طور پر ملا ہے۔باقی دو کیسز کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔
سابق ترجمان میاں نوازشریف ڈاکٹر آصف کرمانی کا کہنا ہے میاں نوازشریف ہمیشہ سرخرو ہوئے۔ حمزہ شہباز کا کہنا ہے حق حق ہوتا ہے کب تک چھپایا جاتا ہے آخر آنا ہی تھا۔ حکومتی ترجمان سمیت وفاقی وزیر اطلاعات اور وزیراعظم عمران خان کو میاں نوازشریف فیملی کی رہائی کی خبر سعودی عرب میں پہنچائی گئی ان کی طرف سے بظاہر خاموشی ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید کا بیان آیا ہے۔ (ن) لیگ کا جشن 20اپریل جیسا ہے کرپشن کے چارجز اپنی جگہ موجود یہ مجرم ہیں اور بری نہیں ہوئے۔ فواد چودھری کا ٹویٹ کہتا ہے عدالتیں آزاد ہیں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔اس کے علاوہ تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے بیانات آئے ہیں ملاجلا ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ البتہ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق نے اوکاڑہ میں پریس کانفرنس میں جو بیان دیا ہے وہ ذرا مختلف ہے ان کا کہنا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیچھے این آر او کا عکس ہے وہ فرماتے ہیں رہائی ڈیل کا نتیجہ ہے معروف قانون دان اعتزاز احسن کا کہنا ہے نیب کے پراسیکیوٹر نے نااہلی کے ساتھ کیس لڑا ہے۔ میاں نوازشریف خوش قسمت ہیں مبارکباد تو بنتی ہے۔سارے بیانات کو ایک طرف رکھ لیں
حق کی فتح کہہ لیں حق آ گیا باطل چلاگیا کہہ لیں۔ عدالتیں آزاد ہیں کہہ لیں عارضی خوشی کہہ لیں، وقتی ریلیف کہہ لیں۔ ایک بات طے ہے 69دنوں میں میاں نوازشریف نے پایا کم ہے کھویا زیادہ ہے۔ زندگی بھر کی ساتھی تین دفعہ ان کے ساتھ خاتون اول کا اعزاز حاصل کرنے والی ان کی ملک بدری کے دوران ان کی سیاست کو زندہ رکھنے والی نڈر بہادر خاتون کا دنیا سے ان کی عدم موجودگی میں دوسری دنیا میں چلے جانا بہت بڑا المیہ ہے۔ میرا دوست کہہ رہا تھا نوازشریف رہا ہو کر بھی خوش نظر نہیں آئے میں نے انہیں بتایا میاں نوازشریف اور ان کے داماد اور صاحبزادی کو رہائی کسی عدالت نے نہیں دی۔میاں نوازشریف کی بزرگ والدہ کی دعائیں رنگ لائی ہیں اگر ٹی وی پر یا اخبارات میں شائع ہونے والی اس دن کی تصاویر پر نظر ڈال لیں جب میاں نوازشریف جاتی امرا سے والدہ سے دعائیں لے کر اڈیالہ جیل جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ ماں کا ماتھا چوم کر سلامتی کی دعائیں اور جلد رہائی کی دعائیں۔ دوسرا منظر کلثوم نواز کی خبر پر دعائیں اور پیرول ختم ہونے پر بیٹے کو گلے لگا کر ایک دفعہ پھر باؤ جی
کی محبت اور سلامتی کے ساتھ رہائی کی دعائیں رنگ لائی ہیں۔اس بات میں دو رائے نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ عارضی ہے اس کو چیلنج ہونا ہے فیصلہ کالعدم ہوتا ہے یا قائم رہتا ہے دیگر دو کیسز کے فیصلے آنے ہیں البتہ ایک بات جو میری رائے کے مطابق حتمی ہے میاں نوازشریف کی رہائی صرف اور صرف ماں کی دعا کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ماں کی دعا نے آسمان ہلا کر رکھ دیئے ہیں اب اسے کوئی ڈیل کہے یا دلیل یا عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کردار سب کسی نہ کسی کو راضی کرنے والے بیانات دے رہے ہیں اب تو یہاں تک کہا جانے لگا ہے۔ میاں نوازشریف پھر باہر جا رہے ہیں ان کی رہائی میں سعودی عرب اور برطانیہ نے کردار ادا کیا ہے۔سعودی عرب نہیں لندن میں رہیں گے۔کچھ احباب ترکی اور چین کا کردار کہہ رہے ہیں۔ میرے نزدیک ماں اور بیٹے کے رشتے کی فتح ہوئی ہے۔ ماں نے اپنے رب سے اپنے بیٹے کے لئے ریلیف مانگا تھا جو مل گیا ہے مولانا فضل الرحمن کی بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ تکلیف کے بعد آرام آتا ہے۔ رہائی عارضی ہو یامستقل اب سنجیدگی ضروری ہے۔
اداروں سے تصادم سے کم از کم ملک کو کچھ نہیں ملا اور نہ آئندہ ملنے والا ہے۔وقتی ریلیف کو بھی مستقل ریلیف سمجھتے ہوئے لانگ ٹرم پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے اور برداشت کرنے کی روایت پر آنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اہم ادارے وہ عدلیہ ہو یا فوج کا ادارہ صحافت کا شعبہ ہو یا ملک کے دیگر اثاثے سب کو ان کا جائز مقام ملنا چاہیے۔ کسی کو دیوار سے لگانے ،کسی کو گلے لگانے کی پالیسی ترک کرکے سب کو ملک کے لئے سوچنا چاہیے۔ ملک ہے تو ہم ہیں رونقیں ہیں سیاست ہے میدان ہوگا تو کھیل ہو سکے گا۔ ڈیل ہے یا دلیل شوشے نہ چھوڑے جائیں کردار عدلیہ کا ہے، سعودی عرب کا وقت خود بتا دے گا۔ جمہوری روایات کو آگے بڑھانا ہے تو ن لیگ کو بھی تصادم سے بچتے ہوئے اگلے انتخابات کا انتظام کرنا چاہیے جمہوری انداز میں یا غیر جمہوری انداز میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی بجائے ان کو اہداف کی تکمیل کے لئے وقت دینا چاہیے آج اگر ہم ان کو کام نہیں کرنے دیں گے تو کل وہ آپ کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ نازک ترین دور میں اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو گلے لگانے کی ضرورت ہے۔ گلے کاٹنے کی نہیں۔ اللہ ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور نظرِ بد سے بچائے۔ آمین