حیرت انگیز اور دلچسپ خاندان
اس وسیع و عریض دنیا میں جہاں ہر طرف انسانوں کے جنگل اگے ہوئے ہیں، بھلا کون یقین کرے گا کہ وہ اس دنیا میں رہنے والے ہر انسان سے واقف ہے۔
یہاں تو ہر انسان اپنی دنیا میں گم ہے اور اسے دوسرے کسی انسان کا نہ علم ہے اور نہ ہوش! ایسے میں کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان پر توجہ کیسے دے سکتا ہے اور کہاں اس کے گھر یا اس کی خصوصیت کے بارے میں جاننا اور سمجھنا، اس کا تو کسی کے پاس بھی وقت نہیں ہے۔ وہ تو آج کے جدید دور میں ٹی وی اور گوگل کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے وجود نے ہمیں وہ مواقع فراہم کردیے ہیں کہ ہم اس حوالے سے بہت کچھ جان سکتے ہیں۔
کوئی بھی شخص ایک بار تلاش شروع کردے اور کھوجنے لگے تو وہ ایسی ایسی حیرت انگیز چیزیں اور ایسے دل چسپ حقائق تلاش کرلے گا کہ وہ ان کے بارے میں جان کر خود بھی حیران رہ جائے گا۔ یہاں ہم آپ کے مطالعے کے لیے کچھ خاندانوں کی ایسی حیرت انگیز کہانیاں اور حقائق پیش کررہے ہیں جو آپ سب کے لیے نہایت دل چسپی کا باعث ہوں گے اور ان کے بارے میں پڑھ کر آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ کیا ہماری اس دنیا میں واقعی ایسے خاندان موجود ہیں۔
1 ۔ ایک سرکس فیملی:
سرکس سبھی کو پسند ہوتے ہیں اور خاص طور سے بچوں کو تو سرکس بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں سرکس اس طرح تو مقبول نہیں ہیں جس طرح کئی دہائی پہلے مقبول ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں تو بڑے اور چھوٹے سبھی بڑے شوق سے سرکس دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے جایا کرتے تھے، اس زمانے میں سرکس دیکھنے جانے والے ان کی ہر چیز کو پوری تفصیل سے نہیں دیکھا کرتے تھے، لیکن آج کل تو ہم سرکس کے بارے میں بہت کچھ پوری تفصیل کے ساتھ جانتے اور دیکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم ’’ویس فیملی‘‘ کی مثال لیتے ہیں جسے جدید دور کی سرکس فیملیز کی آخری نشانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ فیملی پانچ افراد پر مشتمل ہے اور پورے سال سفر میں رہتی ہے۔ یہ فیملی ایک سال میں 3,000 میل کا سفر طے کرتی ہے اور عام طور سے ایک دن میں اپنے دو شو کرتی ہے، ان کے ممی ڈیڈی جان اور لارا اپنے پہلے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی سرکس کا حصہ تھے۔ وہ اس زندگی کو چھوڑنا چاہتے تھے، مگر اپنے پلان کے باوجود وہ اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اسے نہ چھوڑ سکے۔ ان کے تینوں بچے جانی، نکول اور میکس سب نوعمر ہیں اور سرکس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جانی تو “Water for Elephants” نامی فلم میں ایک جوکر کا کردار ادا کرچکا ہے۔
2 ۔ مشنریز کا خاندان:
مشنریز وہ لوگ ہیں جو پوری دنیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر آپ کبھی چرچ گئے ہوں گے تو آپ نے وہاں کبھی نہ کبھی مشنری کا لفظ سنا ہوگا یا ان سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملے ہوں گے۔ مشنریز کی کوششیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں برسوں سے جاری ہیں۔ بعض ذرائع کہتے ہیں کہ اس پریکٹس کا زمانہ قبل مسیح سے جاملتا ہے۔ اس حوالے سے نقل و حرکت کا ایک وسیع بہاؤ 1930کے عشرے میں اس وقت آیا جب بائبل مختلف غیرملکی زبانوں میں ترجمے کے لیے پیش کی گئی تھی۔
آج بھی متعدد متحرک مشنریز دنیا بھر میں مختلف مقامات پر قائم ہیں اور نہ صرف غیرشادی شدہ افراد یا نئے شادی شدہ جوڑے، بلکہ غیرملکوں میں آباد بڑھتی ہوئی فیملیاں بھی شب و روز بائبل کی تعلیمات کے فروغ میں مصروف ہیں۔
برائن اور رابیکا رائٹ نیو لائف بیپٹسٹ چرچ کے ارکان ہیں اور ویلس میں مشنریز کے طور پر کام کررہے ہیں۔ وہ اپنے نوجوان بچوں بروک لین اور بوسٹن کے ساتھ بیرون ملک رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ Welsh اندھیرے کے دور میں رہ رہے ہیں۔ اس خاندان کے بہ مشکل تین فی صد افراد آج کسی سروس میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کی خاص توجہ علاقے کے نوعمر بچوں پر ہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس خطے کے ان نوجوانوں میں بائبل کے پیغام کو عام کرسکتے ہیں جن کی نشوونما چرچ سے دور کی گئی ہے۔
3 ۔ دور جدید کی امش فیملی:
آپ اس بات سے واقف ہوں گے کہ آج بھی ایسے بہت سے بڑے گروپس ہیں جو قدیم طرززندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ اولڈ فیشن کے ملبوسات زیب تن کرتے ہوں گے، گھوڑا گاڑی یا بگھی چلاتے ہوں گے اور گھرں میں تیار کردہ اشیا اور تازہ بیک کی ہوئی مصنوعات فروخت کرتے ہوں گے۔ ایسی ہی ایک فیملی کا تعلق اوہایو سے ہے اور وہ دس سال پہلے اپرا شو میں نمودار ہوئی تھی۔
ڈیوڈ اور ایملی اور ان کے بچے نہایت سختی کے ساتھ بائبل کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور ان کی زندگی میں نہ تو بجلی کا عمل دخل ہے، نہ کمپوٹرز، نہ پرائیویٹ ٹیلی فونز کا اور نہ ہی کاریں استعمال کرتے ہیں۔ بائبل کے مطابق وہ اپنے پیروکاروں کو دنیا سے دور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ انوکھا جوڑا اپنی کمیونٹی سے دور رہ رہا ہے اور ٹی وی تک پر دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے سو فی صد مطمئن ہیں۔
4 ۔ دنیا کی سب سے موٹی فیملی:
globesity ہماری لغت میں ایک نئی اصطلاح ہے، آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ یہ اصطلاح ان دو ارب فربہ افراد کے لیے ہے جو اس وقت ہمارے اس کرۂ ارض پر رہ رہے ہیں۔ متعدد اعدادوشمار کے مطابق اگر آپ کے والدین امریکا میں رہائش پذیر ہیں تو آپ کے موٹا ہونے کے مواقع تین گنا زیادہ ہیں۔ یہ ایک ایسی تشویش ناک صورت حال ہے کہ جس کے مطابق پوری دنیا کے موٹے ترین ملکوں میں ٹونگا وہ ملک ہے جہاں کی92 فی صد آبادی اوور ویٹ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ موٹا ہونا بھی ایک ثقافتی مسئلہ ہے، کیوں کہ اکثر لوگ اپنے وزن کے حوالے سے فکر مند دکھائی نہیں دیتے، بلکہ وہ تو یہ بھی پروا نہیں کرتے کہ اس مٹاپے کے باعث انہیں صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔
یہاں مٹاپے کی تبدیلی کا عمل لگ بھگ تیس سال پہلے اس وقت شروع ہوا جب اس جزیرے پر دوسرے ملکوں سے کھانے پینے کی سستی اشیا کی درآمد شروع ہوئی اور مختلف ملکوں سے یہ کھانے پراسیس بھی ہونے شروع ہوئے۔
دنیا بھر کی موٹی ترین فیملی ٹونگا میں رہتی ہے۔باپ ٹووا کا وزن 500 پاؤنڈ ہے اور ماں اور بیٹی کا وزن لگ بھگ 270 پاؤنڈ فی عدد ہے اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی Sia کا وزن بھی 300 پاؤنڈ کے قریب ہے۔
5 ۔ دنیا کی سب سے بڑی فیملی:
یہ سچ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کا تعلق بڑی فیملیوں سے ہوتا ہے جن میں آنٹیاں، انکلز اور کزنز کے گروپ ملک بھر میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں، بلکہ بعض تو دنیا بھر میں موجود ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی بھی فیملی اتنی بڑی نہیں ہوسکتی کہ جیسی انڈیا میں میزورام کے Ziona Chana کی ہے۔ اس خاندان میں39 بیویاں ،14 بہوئیں، 94 بچے اور 33 پوتے اور نواسے شامل ہیں۔ وہ سب کے سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں جو ایک چار منزلہ 100 کمروں پر مشتمل مینشن ہے۔
Ziona اور اس کا خاندان ایک ایسے مذہبی گروہ کا حصہ ہے جو انہیں زیادہ سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے ارکان کی تعداد 400 تک نہیں پہنچ جاتی، وہ مزید بیویاں بنانے سے نہیں رکے گا۔ فی الوقت اس فیملی کے ارکان کی تعداد 181 افراد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ فیملی ملٹری اسٹائل ڈسپلن کے مطابق چل رہی ہے اور اس میں سب سے بڑی بیوی تمام پارٹنرز کو اپنے اپنے کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہے جن میں صفائی ستھرائی سے لے کر کھانے کی تیاری، اور کپڑوں کی دھلائی تک کے دیگر گھریلو کام شامل ہیں۔ ہر کھانے کی تیاری میں لگ بھگ 30 پورے مرغ لگتے ہیں، اس کے ساتھ 130 پاؤنڈ آلو اور 220 پاؤنڈ چاول بھی پوری فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
6 ۔ دنیا کی سب سے زیادہ حسین فیملی:
دنیا میں اس وقت مستقل طور پر نسلی اختلاف کی وجہ سے بہت سے دیگر اختلاف بھی پیدا ہوگئے ہیں اور لوگ اپنے رنگ، نسل اور خاندان پر فخر کرنے لگے ہیں۔ کچھ خاندان پُرکشش اور خوب صورت شمار ہوتے ہیں جب کہ کچھ فیملیاں دنیا کی سب سے زیادہ حسین فیملیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔
مغرب کی پرنٹ اور ٹی وی ایڈورٹائزنگ مہمات میں The Rowleys دنیا کی سب سے خوب صورت فیملی سمجھی جاتی ہے۔
اس خاندان کے تمام پانچ ارکان ماڈل ہیں اور بلاشبہہ ان کی پورے برطانیہ میں بہت زیادہ ڈیمانڈ بھی ہے۔ ان کے والدین انتھونی اور کمبرلے کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ اس خطے کی پاپولر چوائس ہیں کیوں کہ وہ نسلی طور پر ایک مخلوط فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس خاندان کے تمام پانچ ماڈلز جس ماڈلنگ ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں، اس کا کہنا ہے کہ اس فیملی یہ تمام ارکان شاہی خاندان کے ارکان لگتے ہیں اور انہیں کہیں سے بھی کوئی اسکرین والی فیملی نہیں سمجھا جاتا۔
7 ۔ ڈاکٹروں کی فیملی:
دنیا کے کسی بھی ملک میں میڈیکل اسکول میں داخلہ لینا اور پھر اس اسکول سے فارغ التحصیل ہونا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے، لیکن بعض فیملیز کے تو خون میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیدا ہی اس کام کے کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔
عام طور سے اکثر ڈاکٹر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے کوئی نہ کوئی رشتہ یا تعلق ہے۔ بعض ڈاکٹرز کے بچے تو اس پروفیشن سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود بھی ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں، ہم آپ کو ایسی ہی ڈاکٹروں کی ایک فیملی کے بارے میں بتاتے ہیں۔چند سال پہلے Vinamrita Patni نام کی ایک انڈین خاتون اپنے خاندان کی وہ 32ویں رکن بن گئیں جو میڈیسن کی دنیا پر بڑی شان سے چھاگئیں۔
وہ ڈاکٹرز کی اس دوسری نسل کی سب سے کم عمر ڈاکٹر ہیں اور ان کی اس نسل میں ان کے ماں اور باپ دونوں شامل ہیں اور اس کے ساتھ ان کے دیگر رشتے دار جیسے آنٹیاں، انکلز اور کزنز بھی اس میں شامل ہیں۔
اس فیملی میں فی الوقت 7 فزیشنز، پانچ گائناکولوجسٹس، تین opthamologists، تین ای این ٹی اسپیشلسٹس، نیورولوجسٹس، یورولوجسٹس، سرجنز،سائیکاٹرکس۔ پیتھالوجسٹس اور آرتھوپیڈک ڈاکٹرز شامل ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔ Vinamrita کا کہنا ہے کہ وہ زبردستی اس شعبے میں نہیں دھکیلی گئی تھیں، بلکہ یہ ان کا اپنا انتخاب تھا، وہ بچپن سے ہی ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، خاص طور سے اپنے والدین کو دیکھ کر انہیں ڈاکٹر بننے کی خواہش ہوئی تھی اور وہ غریبوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے کی خواہش مند تھیں۔
8 ۔ ایک فیملی جو ایک اجاڑ اور سنسان جزیرے پر رہتی ہے:
ہوسکتا ہے کہ یہ بات عجیب سی لگے، مگر یہ سچ ہے کہ ایک فیملی ایک اجاڑ اور سنسان جزیرے پر رہتی ہے۔ ممکن ہے یہ ہالی وڈ کی کوئی فلم کا منظر لگے، مگر یہ سچ ہے کہ ایسا ہے۔The Von Engelbrechtensایک ایسے اجاڑ اور سنسان دور دراز جزیرے پر رہتا ہے کہ وہاں تک بوٹ کے ذریعے پہنچنے میں تین دن لگ جاتے ہیں۔ اس جزیرے کا نام Fofoa ہے اور یہ ننھا منا جزیرہ Vava جزائر سے آٹھ سال پہلے وجود میں آیا تھا اور ہمارا یہ جوڑا وہاں رہنے پہنچ گیا تھا۔ اس جوڑی کا نام بورس اور کیرن ہے اور ان کے تین بیٹے ہیں: جیک، لوکا اور فیلکس۔
یہ جوڑا اصل میں نیوزی لینڈ میں رہتا تھا لیکن اس نے اس جزیرے پر آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ ایک خوب صورت سے گھر میں رہتے ہیں جو تمام دیسی مٹیریل سے بنایا گیا ہے۔ اس گھر کی تعمیر پر 70,000 پاؤنڈ یا $85,000 ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ چھوٹے لڑکے ہوم اسکولنگ کر رہے ہیں اور فیملی کا کہنا ہے کہ وہ ساٹھ فی صد خود کفیل ہیں اور ضرورت کی تمام چیزیں بوٹ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں جو ان کی ضروریات کے لیے ہر تیسرے ہفتے ڈبا بند اشیا لاتی ہے۔ ان بچوں کی ممی کیرن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اس صاف ستھرے اور آلودگی سے پاک ماحول میں کی ہے۔ سب سے بڑا بیٹا جیک اب نیوزی لینڈ میں بورڈنگ اسکول میں پڑھتا ہے اور اسے دوستوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ فیملی کہتی ہے کہ اس جزیرے پر رہنا ایک زبردست پر تجسس تجربہ ہے لیکن بعض اوقات ماحولیاتی مسائل جیسے زلزلے، ہری کینز اور سونامی بہت مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔
9 ۔ دنیا کی سب سے زیادہ دل چسپ فیملی:
سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کے مطابق دنیا میں ایک فیملی ایسی بھی ہے جو آن لائن اور دوسرے معاملات میں کچھ اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس جال سے نکل نہیں پارہی۔ اس فیملی کوCoffey family کہا جاتا ہے اور اسے دنیا کی سب سے دل چسپ فیملی قرار دیا گیا ہے۔ اس فیملی کے ارکان کی تعداد پانچ ہے جن کی پرورش سڑک پر ہوئی، ان کے ماں باپ نے ان کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اور انہیں پورے آسٹریلیا میں گھمایا پھرایا۔
یہ گھرانا جنوب میں Coolangatta میں آباد ہوا، یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ سارا سار دن سمندر کی لہروں اور ریت میں کھیلتے تھے۔ سرخ اور تانبے کی رنگت والے یہ سب بہن بھائی بہت ہی پسند کیے جاتے ہیں۔
آسٹریلیا کے ریالٹی ٹی وی شو پر اپنی پرفارمنس کے لیے یہ سب بہت مشہور ہیں اور ان کی خوف ناک سرفنگ اسکلز بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بہن ایلی جین اس سال 23 کی ہوجائے گی اور وہ ورلڈ ٹور کا پروگرام بھی رکھتی ہے اور ریکارڈ قائم کرنا چاہتی ہے۔اس فیملی کا واحد بیٹا جیکسن بھی سرفنگ کی دنیا میں نام بنانا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ Holly-Daze ایک کم عمر لڑکی ہے وہ بھی سرفنگ کے شعبے میں کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے سرگرم ہے اور اس میں نام پیدا کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ماڈلنگ بھی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ Ruby-Lee اس سال 16کی ہوجائے گی۔ لیکن ابھی تک اس نے باقاعدہ طور پر کوئی کام شروع نہیں کیا ہے البتہ وہ ابھی تک ابتدائی جدوجہد میں مصروف ہے۔
10 ۔ تعلیم کے بجائے تربیت پر یقین رکھنے والا خاندان:
اکثر امریکی فیملیز اپنے چھوٹے بچوں کا اسکول کے بجائے یا تو انہیں ابتدائی برسوں میں ڈے کیئر میں بھیجتی ہیں یا خود ہی پڑھاتی ہیں۔ اور پھر پانچ یا چھے سال کی عمر میں انہیں اسکول بھجواتی ہیں۔
کچھ فیملیز ایسی بھی ہیں جو اسکولنگ کے آئیڈیا کو پسند نہیں کرتیں یعنی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا نہیں چاہتیں، ایسی ہی ایک فیملی Hewitts کی ہے۔ ان کے لڑکے اس وقت گیارہ سے چودہ سال کی عمر کے ہیں، مگر وہ کبھی اسکول نہیں گئے۔ وہ اپنا زیادہ وقت یا تو گھر سے باہر گزارتے ہیں یا پھر اپنے والدین بین اور پینی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ان کے والدین کی خواہش ہے کہ ان کے بچے کبھی اسکول نہ جائیں، ان کے اس انوکھے تصور کو “unschooling” کا نام دیا گیا ہے۔
اس طریقۂ تعلیم میں ان کے بچے وہ کچھ سیکھتے ہیں جو وہ سیکھنا چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں سیکھ لیتے ہیں اور جتنی دیر چاہتے ہیں سیکھ لیتے ہیں۔ نہ تو وہ کسی نصاب کے مطابق چلتے ہیں نہ وہ ٹیسٹ دیتے ہیں اور نہ ہی گریڈ حاصل کرتے ہیں۔ They spend approximately 2 hours a month onوہ لگ بھگ ایک ماہ کے دوران دو گھنٹے تعلیم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ عام طور سے بچوں پر بھروسا کیا جاتا ہے کہ انہیں جو کچھ سیکھنا چاہیے، وہ پوری ایمان داری سے وہ سیکھ رہے ہیں اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رہے۔
یہ بچے خوب محنت سے پڑھتے ہیں اور اسکول کے طے شدہ معیار کے مطابق پڑھتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو وہ اس معیار سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کے والدین کے مطابق وہ ہمیشہ اپنے اس طریقۂ تعلیم کے تحت بہت زیادہ کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور زندگی میں خود کو خوش اور کام یاب بچے ثابت کرتے ہیں۔