قومی کر کٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فٹنس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کھلاڑیوں کی بہترین فٹنس میں یو یو ٹیسٹ کا بڑا کردار ہے،فٹنس کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، اس لئے جو کھلاڑی سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترے گا وہ پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکتا ۔اپنے ایک انٹرویو میں مکی ارتھر نے کہا کہ جب گرین شرٹس کو جوائن کیا تھا۔ اس وقت کھلاڑیوں کی فٹنس میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش تھی۔اس لئے اس کمزوری کو دور کرنے کیلئے مربوط حکمت عملی ترتیب
دی۔مکی آرتھر کے مطابق انہوں نے شروع میں ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ ٹیم کو فزیکل فٹنس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ٹیمیں اسکن فولڈ ٹیسٹ یادو کلو میٹرز پر مشتمل رننگ ٹیسٹ کرتی ہیں تاکہ اپنے کھلاڑیوں کی فٹنس کا جائزہ لے سکیں لیکن ہم نے یو یو ٹیسٹ کا سادہ طریقہ اپنایا جس سے کارڈیو ، اسٹیمنا اور فٹنس کا اندازہ ہو گیا۔ان کا کہنا تھا کہ فٹنس میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے کیونکہ اسٹرینتھ اور کنڈیشننگ کوچ گرانٹ لیوڈن نے اس معاملے پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے جو کھلاڑیوں کیلئے بھی بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ یو یو ٹیسٹ سے کھلاڑیوں کا فوکس بھی بہتر ہوتا ہے اور وہ فیلڈ پر زیادہ دیر تک اچھی پرفارمنس کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ کھلاڑی کو یویو ٹیسٹ سے کافی مدد ملتی ہے اور وہ اچھی فٹنس کی بدولت اپنی اننگز کو ستر ،اسی یا سو رنز میں بدل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھی فٹنس سے بالرز کو بھی طویل سپیل کرانے میں مدد ملتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یو یو ٹیسٹ میں 17.1سکوربینچ مارک رکھا گیا تھا جسے اب 17.4 کر دیا گیا ہے۔ مکی آرتھر کا کہنا تھا کہ فٹنس کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ اس لئے جو کھلاڑی سٹینڈرڈ پر پورا نہیں اترے گا، وہ پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔مکی آرتھر کے مطابق پاکستانی کرکٹرز کو بھی معلوم ہے کہ فٹنس لیول کم از کم کتنا ہونا چاہئے اور کوئی بھی کھلاڑی ہو ،اگر مطلوبہ فٹنس نہیں ہو گی تو ا سے منتخب نہیں کر سکتے اور یہ دھمکی نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سو فیصد فٹ کھلاڑیوں کو فیلڈ پر اتارا جائے تاکہ جدید کرکٹ میں مقابلہ کر سکیں۔اس ضمن میں گرانٹ لیوڈن کی خدمات قابل ستائش ہیں جنہوں نے فٹنس کا معیار طے کیا اور ٹیم میں نظم وضبط ، جوش و جذبہ بیدارکیا جو کھلاڑیوں کی کارکردگی میں بھی نظر آتا ہے۔