جب بلی کے اپنے پاؤں جلے تو اس نے اپنے بچوں کو پاؤں تلے لے لیا‘‘، نواز شریف نے اپنے ہی بچوں حسن اور حسین نواز کے حوالے سے ایسا موقف اپنا لیا کہ پوری قوم حیران رہ گئی
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ ان کے بیٹے آزاد اور بالغ ہیں، میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر نشانہ بنے ہیں، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے اس بیان پر ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سینئر صحافی کامران خان سے بات کرتے ہوئے معروف قانون دان علی ظفر نے کہا کہ نوازشریف کا سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں موقف مختلف تھا، نوازشریف کادفاع قابل قبول نہیں رہا ان کو بتانا ہوگا ان کے بچوں کے پاس پیسہ کہاں سے آیا، نوازشریف کو یہ
بات پہلے کہناچاہئے تھی کہ جائیداد کا بچوں سے پوچھا جائے،ایک موقر قومی اخبار نے اس پروگرام کی تفصیلات میں لکھا کہ نوازشریف کے وکلاسپریم کورٹ میں موقف پیش کر چکے ہیں، نوازشریف کا معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرنا مشکل لگتا ہے، معروف قانون علی ظفر نے کہا کہ نوازشریف منی ٹریل ثابت کردیں تو بری ہوسکتے ہیں، سادہ الفاظ میں اس کیس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ نیب قانون کے تحت نیب پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ ثابت کریں کہ لندن کی پراپرٹی نواز شریف یا ان کے بچوں کی ہے اور کس سال یہ پراپرٹی خریدی گئی، اس ثبوت کے بعد نواز شریف اور ان کی لیگل ٹیم پر یہ بار ثبوت جاتا ہے کہ اس پراپرٹی کی خریداری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ انہوں نے کہا کہ میرے علم کے مطابق نیب پراسیکیوٹر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ پراپرٹی نواز شریف کے بچوں کے نام پر ہے۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں بھی ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ بتا سکتے ہیں کہ ان املاک کے فنڈز کہاں سے آئے؟ علی ظفر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قطری شہزادے کی بھی کہانی سنائی تھی، دبئی گلف سٹیل ملز کی فروخت کے حوالے سے بھی موقف پیش کیا تھا، ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ احتساب عدالت میں بھی وہ ثبوت فراہم کرتے کہ یہ پراپرٹی کیسے خریدی گئی، اگر وہ یہ ثابت کردیں تو وہ اس کیس سے بری ہوسکتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے دفاع کا جس طرح اختتام کیا ہے وہ خطرناک ہے یہ ان کا سیاسی بیان تھا، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں پہلے ان کا موقف کچھ اور رہا، وہ بتاتے رہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئے جبکہ احتساب عدالت میں یہ کہنا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور یہ پراپرٹی ان کے بچوں کی ہے ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے اگر وہ فنڈز کا ذریعہ نہیں بتاتے تو میرے مطابق ان کو سزا ہوسکتی ہے۔ ایک اور چیز پر بھی غور کرنا چاہیے کہ نیب عدالت کے جج صاحب نے جو سوالات بنائے تھے اس سے نیب عدالت کا ذہن بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کیس کو کس طرح دیکھ رہی ہے وہ سوالات پراپرٹی اور فنڈز کے ذریعہ کے بارے میں تھے، لا تعلقی اختیار کرنا نواز شریف کی قانونی حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن بطور ایک آزاد آبزرور کے مجھے یہ خطرناک حکمت عملی لگتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس منی ٹریل نہیں ہے یا یہ ظاہر کرتا ہے کہ نواز شریف یہ سوچ رہے ہیں کہ چونکہ فیصلہ ان کے خلاف ہی آئے گا اس لیے وہ ایک سیاسی بیان دے رہے ہیں۔ یہ سیاسی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے لیکن قانونی لحاظ سے مجھے خطرناک لگتی ہے اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف کے بچے اس وقت کمائی نہیں کر رہے تھے ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا تو پھر نواز شریف پر ذمہ داری ہے کہ وہ بتائیں کہ ان کا پیسہ کہاں سے آیا۔ یہ ایک فطری اور منطقی سوال ہے دوسرے نواز شریف کے وکلاء پہلے ہی سپریم کورٹ میں قطری شہزادے سے متعلق ایک موقف لے چکے ہیں، دبئی گلف سٹیل ملز اور سعودی عرب میں سٹیل ملز کا بتایا اور کہا کہ ان کی فروخت سے جو پیسہ حاصل ہوا اس سے یہ اپارٹمنٹس خریدے گئے تھے اس مرحلہ پر نواز شریف کی طرف سے لا تعلقی اختیار کرنا بہت مشکل لگتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کے بیان کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے پارلیمنٹ میں دیا تھا اس میں بھی نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ فنڈز کے ذرائع بتائیں گے۔اب یکدم یہ کہنا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں خطرناک لگتا ہے یہ بہت رسکی ڈیفنس ہے اور نواز شریف کو سزا ہوسکتی ہے۔