اسرائیل کا ڈھائی لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں بسانے کا انکشاف
یروشلم : گذشتہ ایک عشرے کے دوران ڈھائی لاکھ سے زائد یہودیوں کو دنیا بھر سے اکھٹا کرکے فلسطین میں آباد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010 کے بعد 2019 تک دنیا کے 150 ممالک سے دو لاکھ 55 ہزار یہودیوں کو لاکر فلسطین میں آباد کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2019 کے دوران اب تک 34 ہزار یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسایا گیا پے، مقبوضہ فلسطین میں لا کر بسائے گئے آباد کاروں کا تعلق روس، یوکرائن، فرانس، امریکا اور ایتھوپیا سمیت دنیا کے 140 سے زائد ممالک سے ہے۔
مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سوویت یونین سے ایک لاکھ 30 ہزار یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا گیا جبکہ یورپی ممالک سے 55 ہزار ، شمالی امریکا سے 36 ہزار ، لاطینی امریکا سے 13 ہزار 420، ایتھوپیا سے 10 ہزار 500 اور جنوبی افریقا میں 2560 یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1948 سے 2017 کے دوران 7 ہزار 32 ہزار یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا گیا۔
اسرائیلی بستیوں کا مطالعہ کرنے والی تنظیم ’پیش ناؤ‘ کے مطابق اس وقت مغربی کنارے میں 132 بستیاں اور 113 آؤٹ پوسٹ ہیں جو بغیر اجازت کے بنائی گئی ہیں۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ان میں 413000 لوگ رہتے ہیں اور یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے جبکہ مشرقی یروشلم میں 13 بستیاں ہیں جس کی آبادی 215000 افراد پر مشتمل ہے۔
اسرائیل نے غزہ پٹی اور جزیرہ نما سینا میں بھی بستیاں بنائی تھیں تاہم اب انھیں ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ علاقہ اسرائیل نے 1967 میں مصر سے چھینا تھے۔
ان کے علاوہ گولان کے پہاڑی علاقے میں بھی درجنوں بستیاں ہیں۔