چنگیز خان، کروڑوں کے باپ مگر اپنے بیٹے کے نہیں
تیرویں صدی عیسوی کے آغازمیں شمال مغربی ایشیا کی چراگاہوں سے ایک ایسا بگولہ اٹھا جس نے دنیا کی بنیادوں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ چنگیز خان کی سفاک دانش کی رتھ پر سوار منگول موت اور تباہی کا پیغام ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے بعد شہر، علاقے کے بعد علاقہ اور ملک کے بعد ملک سرنگوں ہوتے چلے گئے۔
محض چند عشروں کے اندر اندر خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کرتے، عالی شان شہروں کی راکھ اڑاتے چنگیز خان کے جرنیل بیجنگ سے ماسکو تک پھیلی دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی متصل سلطنت کے مالک بن گئے۔
اپنے عروج کے دور میں منگول سلطنت تین کروڑ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج اس علاقے کی کل آبادی تین ارب نفوس پر مشتمل ہے۔
لیکن چنگیز خان دنیا کی کامیابیاں صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں تھیں۔ ایک اور میدان میں بھی اس کی فتوحات اتنی ہی حیرت انگیز ہیں۔
چند برس پہلے ایک جینیاتی تحقیق سے معلوم ہوا کہ سابق منگول سلطنت کی حدود میں رہنے والے آٹھ فی صد کے قریب لوگوں کے وائی کروموسوم کے اندر ایک ایسی نشانی موجود ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ منگول حکمران خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ یا تقریباً نصف فیصد مرد ایسے ہیں جن کے خون کا رشتہ جا کر چنگیز خان سے ملتا ہے۔
پاکستان میں یہ نشانی ہزارہ قبیلے کے افراد کے ڈی این اے میں پائی جاتی ہے جو خود کو منگول کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مغل، چغتائی اور مرزا ناموں والے بعض لوگ بھی اپنے آپ کو منگول نسل کا بتاتے ہیں۔
کسی ایک شخص کی اتنی اولاد کیسے ہو سکتی ہے؟
اس کے تاریخی شواہد بھی ملتے ہیں۔
چنگیز خان نے خود درجنوں شادیاں کیں اور اس کے بیٹوں کی تعداد 200 بتائی جاتی ہے۔ پھر ان میں سے کئی بیٹوں نے آگے جا کر حکومتیں قائم کیں اور ساتھ ہی ساتھ بڑے حرم رکھے جہاں ان کے بڑی تعداد میں بیٹے پیدا ہوئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق چنگیز خان کے ایک بیٹے توشی خان کے 40 بیٹے تھے۔
مشہور تاریخ دان ملک عطا جوینی اپنی کتاب ‘تاریخِ جہاں گشائی’ میں چنگیز خان کی موت کے صرف 33 سال بعد لکھتے ہیں:
‘اس وقت اس کے خاندان کے 20 ہزار افراد عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں اس کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ کیوں کہ ایسا نہ ہو اس کتاب کے قارئین اس کے مصنف پر مبالغے کا الزام نہ لگا لیں اور یہ کہنا شروع کر دیں کہ اتنے مختصر وقت میں ایک شخص کی اتنی زیادہ اولاد کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟’
اس موقعے پر ہمارا سامنا تاریخ کی ایک حیران کن اور انوکھی ستم ظریفی سے ہوتا ہے۔
جب چنگیز خان کی عمر 60 برس سے تجاوز کر گئی تو اس نے اپنے خیمے میں اپنے پہلی بیوی اور ملکۂ عالیہ بورتہ خاتون سے ہونے والے چار بیٹوں جوچی، اوغدائی، چغتائی اور تولی کی مجلس (قرولتائی) بلوائی جس میں اس کے جانشین کے نام کا فیصلہ ہونا تھا۔ چنگیز خان نے مجلس کا آغاز کچھ یوں کیا
‘اگر میرے سب بیٹے خان بننا چاہتے ہیں، اور ایک دوسرے کے نیچے کام کرنے سے انکار دیں تو پھر کیا یہ وہی بات نہیں ہو گی جو پرانی کہانیوں کے دو سانپوں کے بارے میں کہی جاتی ہے جس میں سے ایک کے کئی سر اور ایک دم اور دوسرے کا ایک سر اور کئی دمیں تھیں؟’
چنگیز خان نے کہانی سنائی کہ جب متعدد سروں والا سانپ بھوکا ہوتا تھا اور شکار کرنے کے لیے نکلتا تھا تو اس کے متعدد سر آپس میں متفق نہیں ہو پاتے تھے کہ کس طرف جانا ہے۔ جب کہ ایک سر والا آسانی سے شکار کر لیتا تھا۔ آخر کئی سروں والا سانپ بھوک سے مر گیا، جب کہ دموں والا آرام سے زندگی گزارتا رہا۔
اس کے بعد چنگیز نے اپنے سب سے بڑے بیٹے جوچی خان کو بولنے کے لیے کہا۔ منگول روایت کے مطابق پہلے بولنے کا حق دینے کا مطلب یہ تھا کہ باقی بھائی جوچی کی اولیت قبول کر لیں۔
یہ وہ بات دوسرے نمبر والے بیٹے چغتائی کو قبول نہیں تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا: ‘کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ جوچی کو اپنی جانشینی عنایت کر رہے ہیں؟ ہم کسی مرکِد کی ناجائز اولاد کو اپنا سربراہ کیسے مان سکتے ہیں؟’
چغتائی کا اشارہ 40 برس پرانے اس واقعے کی طرف تھا جب بورتہ خاتون کو چنگیز کے مخالف قبیلے مرکد نے اغوا کر لیا تھا۔ اس کی بازیابی کے کچھ ہی عرصے بعد جوچی پیدا ہوا جس پر اس وقت بھی انگلیاں اٹھی تھیں، حالانکہ چنگیز ہمیشہ اس افواہ کر رد کرتے رہے تھے۔
بورتہ 1161 میں اولخوند قبیلے میں پیدا ہوئی تھیں جو تیموجن (چنگیز خان) کے قبیلے بورجیگن قیبلے کا حلیف تھا۔ ان دونوں بچپن ہی میں منگنی ہو گئی تھی، جب کہ شادی اس وقت ہوئی جب بورتہ کی عمر 17 اور چنگیز کی عمر 16 برس تھی۔ بورتہ کو سمور کی پوستین بطور جہیز دی گئی۔
تاہم شادی کے چند ہی دن بعد مرکد قبیلے نے جوڑے کے کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ تیموجن اپنے چھ کم عمر بھائیوں اور ماں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تاہم اس کی دلھن پیچھے ہی رہ گئی۔
مرکد اصل میں بورتہ ہی کے لیے آئے تھے۔
اصل میں تیموجن کی ماں ہوئلن مرکد قبیلے سے تعلق رکھتی تھی اور اسے تیموجن کے باپ نے اغوا کر کے اپنی بیوی بنایا تھا۔ اب مرکد بورتہ کو اغوا کر کے ہوئلن کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔
بورتہ ایک بیل گاڑی میں چھپ گئی لیکن مرکدوں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور گھوڑے پر ڈال کر ساتھ لے گئے۔
تیموجن نے اپنی دلھن کی بازیابی کی کوششیں جاری رکھیں۔ خانہ بدوش مرکد قبیلہ وسطی ایشیا کی ہزاروں میل کے رقبے پر پھیلی چراگاہوں میں جہاں جہاں جاتا، تیموجن کچھ فاصلے سے ان کے پیچھے پیچھے ہوتا تھا۔ اس دوران اس نے ادھر ادھر سے ساتھی بھی اکٹھا کرنا شروع کر دیے۔
اس کا ایک قول مشہور ہے کہ ’مرکدوں نے صرف میرا خیمہ ہی سُونا نہیں کیا بلکہ سینہ چیر کر میرا دل بھی نکال لے گئے ہیں۔‘
بالآخر جب مرکد قبیلہ چار سو کلومیٹر دور سائبیریا کی بیکال جھیل کے قریب خیمہ زن ہوا تو تیموجن نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی ڈرامائی چھاپہ مار کارروائی میں بورتہ کو دشمنوں کے قبضے سے چھڑوا لیا۔
بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ واقعہ چنگیز خان کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیوں اسی واقعے نے اسے اس راستے پر ڈال دیا جس پر چل کر وہ آگے فاتحِ عالم بنے۔
تاہم بورتہ کو چھڑاتے چھڑاتے آٹھ مہینے گزر چکے تھے۔
بورتہ نے واپسی کے کچھ ہی عرصے بعد جوچی کو جنم دیا۔ اس وقت بھی چہ میگوئیاں ہوئیں لیکن چنگیز نے ہمیشہ جوچی کو اپنا بیٹا ہی تسلیم کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا۔
لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ 40 برس بعد یہی واقعہ اس کے گلے کی ہڈی بن جائے گا اور اس کے اپنے بیٹے اس پر انگلیاں اٹھائیں گے۔
چغتائی نے جب جوچی پر الزام دھرا تو جوچی چپ نہ بیٹھ سکا۔ اس نے اٹھ کر چغتائی کو تھپڑ دے مارا اور دونوں بھائی گتھم گتھا ہو گئے۔ درباریوں نے بڑی مشکل سے دونوں کو چھڑوایا۔ چنگیز خان کو اندازہ ہو گیا کہ اس کے مرنے کے بعد تینوں چھوٹے بیٹے کبھی بھی جوچی کو بطور خاقانِ اعظم قبول نہیں کریں گے۔
اب چغتائی نے ایک تجویز پیش کی جسے چھوٹے بھائیوں نے فوراً قبول کر لیا۔ اس نے بیچ کا راستہ پیش کیا کہ نہ میں، نہ جوچی، بلکہ تیسرے نمبر والے اوغدائی کو خاقان بنا دیا جائے۔
چنگیز خان نے بھی یہ تجویز قبول کر لی۔ اس نے کہا: ‘دھرتی ماں وسیع ہے اور اس کے دریا اور جھیلیں بےشمار ہیں۔ ایک دوسرے سے دور دور خیمے نصب کرو اور اپنی اپنی سلطنتوں پر حکومت کرو۔’
یہ تاریخ کی عجیب و غریب ستم ظریفی ہے کہ آج جس شخص کی اولاد کروڑوں میں ہے، اس کے اپنے بیٹوں نے اس کے منھ پر اس کے مقرر کردہ ولی عہد کو اس کا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا۔
اٹھارہ اگست 1227 کو آخری سانسیں لیتے وقت شاید چنگیز خان کو سب سے زیادہ اسی بات کا دکھ ہو گا۔