خصوصی عدالت نے پرویز مشرف غداری کیس کےتفصیلی فیصلے کی کاپی پرویز مشرف کے نمائندے کو فراہم کرد ی،پرویزمشرف کے نمائندے فیصلے کی کاپی لے کر عدالت سے روانہ، تفصیلی فیصلہ 69 صفحات پر مشتمل ہے۔
سزائے موت سنانے والے دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس نذراکبرنےپرویز مشرف کو بری کر دیا.جسٹس نذر اکبر کے مطابق استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔جسٹس وقار احمدسیٹھ کےتحریری فیصلے سےانکار کرتا ہوں، جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات کا اختلافی نوٹ لکھا۔
جسٹس وقاراحمدسیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت سنائی۔ ملزم پر تمام الزامات ثابت ہوتے ہیں۔پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا۔ خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو پرویزمشرف کومفرور قرار دیا،پرویزمشرف کو دفاع کا پورا حق دیاگیا،پرویزمشرف کوفرارمیں مدد دینے والوں کوقانون کے دائرے میں لایا جائے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کوپرویزمشرف کوگرفتارکرنے کاحکم بھی دے دیا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے، پھانسی سےقبل اگر پرویزمشرف فوت ہوجاتے ہیں تو لاش کو ڈی چوک لایا جائے، اگرپرویز مشرف کی لاش ملے تواسے ڈی چوک پر 3دن کیلئے لٹکایا جائے ۔جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے،سزائے موت کا فیصلہ ملزم کومفرورقرار دینے کےبعد ان کی غیرحاضری میں سنایا،پرویزمشرف کوفرارمیں مدد دینے والوں کوقانون کے دائرے میں لایا جائے۔غداری سنگین سیاسی جرم ہے،26 جون 2013 کووقت کےوزیراعظم نے ایف آئی اےکوسنگین غداری کی تحقیقات کی ہدایت کی،اس کیس کے حقائق دستاویزی ہیں، دستاویزات جرم ثابت کرتی ہیں،آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔