مسیحی برادری کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے اتوار کے روز جاپان کے شہر ناگاساکی میں عالمی برادری سے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کی اپیل کی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوپ فرانسس نے ناگاساکی کے ایٹم بم ہائپوسنٹر پارک، وہ مقام جہاں پر ایٹم بم گرایا گیا تھا، پر خطاب کرتے ہوئے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کے خاتمے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
جاپان کے شہر ناگاساکی اور ہیروشیما ہی صرف دنیا کے وہ شہر ہیں جنھیں اب تک ایٹمی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ناگاساکی پر 9 اگست 1945 کو امریکہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ میں ایٹم بم گرایا گیا تھا جس میں یک دم 27 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
اس سے دو دن قبل 7 اگست کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا جس سے یک دم 78 ہزار اور بعد میں ایٹمی تابکاری سے چار لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تیز ہواؤں اور بارش کے دوران دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے پوپ فرانسس کا کہنا تھا ’ہماری دنیا میں ایک قابلِ نفرت تفریق پائی جاتی ہے جس میں خوف اور عدم اعتماد کے ذریعے تحفظ کے جھوٹے احساس کو فروغ دے کر استحکام اور امن یقینی بنانے کا دفاع کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’باہمی تباہی یا انسانیت کے مکمل خاتمے کا خوف اور امن و بین الاقوامی استحکام آپس میں مطابقت نہیں رکھتے۔‘
پوپ فرانسس نے اپنی تقریر اس تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر کی جس کو ناگاساکی دھماکے کے کچھ وقت بعد ہی ایک امریکی سپاہی نے کھینچا تھا۔ اس تصویر میں ایک جاپانی بچہ اپنے چھوٹے بھائی کو آخری رسومات کے لیے لے جا رہا ہے۔
انھوں نے ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل پابندی کے سنہ 2017 کے معاہدے کے لیے اپنی حمایت کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا، جس پر اس وقت اقوامِ متحدہ کے تقریباً دو تہائی ملک راضی ہو چکے تھے مگر بڑی ایٹمی قوتوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔
مخالفت کرنے والے ممالک کا کہنا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے روایتی جنگوں کا خطرہ اب ٹل چکا ہے۔
مگر پوپ فرانسس نے ناگاساکی کے ہلاک شدگان کے لیے دعا کرنے کے بعد ان کی یاد میں شمع روشن کرتے ہوئے کہا کہ ’ایٹمی اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیار (امن کی خواہش) پوری نہیں کر سکتے۔‘
انھوں نے کہا ’ایٹمی حملے کے تباہ کن انسانی اور ماحولیاتی اثرات جھیلنے والے اس شہر میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہم چاہے جتنا بھی بولیں، وہ کم ہے۔‘
‘ایک ایسی دنیا جہاں کروڑوں بچے اور خاندان غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں، وہاں تباہ کن اسلحے کی تیاری، اپ گریڈ، مرمت اور فروخت پر پیسے ضائع کرنا اور اس سے دولت کمانا خدا کے غصے کو دعوت دینا ہے۔‘
یاد رہے کہ رواں برس اگست میں امریکہ نے روس پر سٹریٹجک ہتھیاروں کے متعلق ایک معاہدے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز ٹریٹی (آئی این ایف) سے خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
ماسکو نے امریکہ کے اس الزام کی تردید کی تھا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں ہی کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے نئے جوہری معاہدے پر چین اور روس دونوں دستخط کریں۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر دونوں ممالک سے بات کر چکے ہیں اور دونوں ہی اس حوالے سے ’بہت، بہت پرجوش ہیں۔‘
سرد جنگ کے دور میں طے پانے والے ’انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز! (آئی این ایف) معاہدے نے 500 سے لے کر 5500 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
یہ معاہدہ سنہ 1987 میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن اور سابقہ سوویت یونین کے سربراہ میکائل گورباچوف کے درمیان طے پایا تھا تاہم 30 سال سے زیادہ عرصے کے بعد اس کے خاتمے سے اسلحے کی نئی دوڑ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے دستبرداری سے پہلے واشنگٹن نے الزام لگایا کہ روس نے ایک نئی قسم کا کروز میزائل بنا کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے تاہم ماسکو نے الزام کی تردید کی۔
اس وقت نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولنبرگ اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سرد جنگ کے معاہدے کے خاتمے کے لیے روس کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔