چیئرمین تحریک انصاف عمران خان وزیراعظم منتخب ہونے کے بعداپوزیشن کے احتجاج پرجذباتی اور غصے میں آگئے،،عمران خان نے لکھی تقریر کی بجائے زبانی جلسے والی تقریر کردی، وہی پرانی باتیں اور الزامات دہرا دیے، جبکہ نومنتخب وزیراعظم سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ حکومتی پالیسی سازی پرمبنی تقریر کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں پالیسی میکر ز کو حیران جبکہ جذباتی کارکنان کوایک بار پھر اکسادیا ہے۔۔عمران خان کی تقریرایوان میں وزیراعظم کی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے لکھی تقریرکرنا اس لیے گوارا نہ کیا کہ کہیں یہ تنقید نہ کی جائے کہ عمران خان نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی ہے۔
کیونکہ اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان اپنے انتخابی جلسوں میں نوازشریف کی پرچی اور لکھی ہوئی تقاریر پر تنقید کرتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نومنتخب وزیراعظم کیلئے انتہائی مئوثر اور اسٹریٹجی اور پالیسی سازی پرمبنی تقریر لکھی گئی تھی۔ جس میں اپوزیشن اور حکومتی معاملات سمیت تمام چیزوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ تاہم عمران خان کے منتخب ہونے کے بعد جب اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاج شروع کردیا اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی طیش میں آگئے انہوں نے لکھی تقریر کی بجائے زبانی کلامی تقریرہی کردی، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عمران خان سے لکھی تقریر اس لیے نہیں کروائی گئی کہ سیاسی مخالفین یہ نہ کہیں کہ عمران خان نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی ہے۔
نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس ملک میں سب سے پہلے ہم نے کڑا احتساب کرنا ہے۔ جن لوگوں نے اس ملک کولوٹا اور مقروض کیا ،وعدہ کرتا ہوں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔کسی قسم کا کسی ڈاکو کواین آر او نہیں ملے گا۔میں نے 22سال جدوجہد کی، مجھے کسی ڈکٹیٹر نے نہیں پالا تھا۔ میں اپنے پیروں پریہاں پہنچا ہوں۔۔میرا باپ سیاست میں نہیں تھا۔ نہ میرا کوئی تجربہ تھا۔
مجھے انہوں نے کہا کہ جوکرپٹ لوگ ملک کاپیسا لوٹ کرباہر لے کرگئے واہ واپس لے کرآئیں گے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں دھاندلی کے ایشو پرحمایت کریں گے۔کیونکہ ہم نے دھاندلی نہیں کی ہے۔میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی بلیک میل نہیں کرسکتا۔ سڑکوں پرنکلو، اگر دھرنا دینا ہے توہم آپ کوکنٹینر دیں گے۔ ہم کھانے بھی پہنچائیں گے اور لوگ بھی بھیجیں گے۔
ڈی چوک آپ کے سامنے ہے۔ لیکن جو مرضی کرلیں آپ کواین آر او نہیں ملے گا۔۔عمران خان کی تقریر پر ان کی جذباتی تقریر کوبعض طبقات نے بڑی زبردست تقریر قراردیا تووہاں سنجیدہ طبقات اور پالیسی میکرز کی جانب سے ان کی تقریرپرمایوسی کا اظہار بھی کیا گیا۔ تاہم اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی تقریر بھی انتہائی جذباتی تقریر تھی۔انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کیخلاف پارلیمانی کمیشن بنانے سمیت پارٹی قیادت کیخلاف کاروائی اور ن لیگ کے حکومتی ادوار میں ترقیاتی کام اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کے خاتمے کی کارکردگی کوبھی اجاگر کیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ دھاندلی پرپارلیمانی کمیشن بنایا جائے جو تحقیقات کرے۔ کمیشن دھاندلی کا پتا لگا کرذمہ داروں کوکیفرکردار تک پہنچائے۔کمیشن 30 دنوں میں تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ شہبازشریف نے کہا کہ مطالبے کے منظور ہونے تک ایوان کی کاروائی کونہیں چلنے دیں گے۔ لیکن ان کے برعکس چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی مئوثر تقریر کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے دھاندلی کے باوجود نومنتخب وزیراعظم کو مبارکباد پیش کی، اور انتخابات کے دوران شہید ہونے والے ہارون بلور ،سردار سراج رئیسانی سمیت تمام شہداء کوخراج عقیدت پیش کیا۔ اسی طرح انہوں نے اپنی شہید والدہ اور شہید نانا کی تاریخ کوبھی اجاگر کیا۔انہوں نے عمران خان کی الزام تراشی پرتنقید اور عمران خان کوان کے وعدے بھی یاد دلائے اور دھاندلی سے متعلق اپنا بھرپور مئوقف بھی پیش کیا۔