نئے پاکستان کی پہلی بڑی سیاسی گرفتاری کی تیاریاں
کراچی کی بیکنگ کورٹس نے جعلی اکاؤنٹس سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔جمعہ کو کراچی کی بینکنگ کورٹس منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جہاں وفاقی تحقیقاتی اداری(ایف آئی ای) نے گرفتار ملزمان اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور عبدالغنی مجید کو پیش کیا۔
دوران سماعت ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کی جانب سے ملزم انور مجید اور ان کے بیٹے کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، جس پر انور مجید کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مخالفت کی۔تاہم عدالت نے ملزمان کے ایک ہفتے کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 24 اگست تک انہیں ایف آئی اے کے حوالے کردیا۔
دوران سماعت ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان پر جلعی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں شامل نہ ہونے والے افراد سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی اور استدعا کی گئی کیس میں مفرور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر 15 ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائے، جس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرلی۔۔عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ تمام ملزمان کو 4 ستمبر تک گرفتار کرکے پیش کیا جائے۔
مفرور ملزمان میں سابق صدر آصف زرداری کے علاوہ نمر مجید، اسلم مسعود، عارف خان، نصیر عبداللہ حسین لوتھا، عدنان جاوید، محمد عمیر، محمد اقبال آرائیں، اعظم وزیر خان، زین ملک، مصطفی ذوالقرنین ودیگر شامل ہیں۔دوسری جانب پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے متعلق میڈیا رپورٹس کی تردید کی۔پی پی پی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے کوئی وارنٹ جاری نہیں ہوئے۔
آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے ان رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اس طرح کا کوئی حکم جاری نہیں کیا۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور ان کے بیٹے کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کرلیا تھا۔وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
حسین لوائی اور دیگر کیخلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آ علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔
ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔
جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویڑن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔