پاکستان

میرانشاہ میں دھرنا ختم لیکن ’ذمہ داران کے کورٹ مارشل کی شرط پر تنازع‘

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مبینہ طور پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاکت کے خلاف تین دن سے جاری دھرنا حکومت اور مقامی افراد کے درمیان مذاکرات کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

تاہم دھرنا ختم ہونے کے کچھ دیر بعد ہی مذاکرات میں تسلیم کیے جانے والے مطالبات پر تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

دھرنا ختم ہونے کے کچھ دیر بعد پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں وائس آف امریکہ دیوہ کی اس رپورٹ کو مسترد کیا جس میں شمالی ویرستان سے نومنتخب رکن قومی اسمبلی اور پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے یہ کہتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا کہ ’حکام نے یقین دلایا کہ کیپٹن ضرار کا کورٹ مارشل ہو گا جنھوں نے مبینہ طور پر احتجاج کرنے والے ایک لڑکے کو ہلاک کر دیا تھا۔‘

میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ حقائق جاننے کے تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور کسی کورٹ مارشل کی یقین دھانی نہیں کرائی گئی۔ فورسز سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا اور وائس آف امریکہ دیوہ نے غلط رپورٹننگ کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کی ٹویٹ کے جواب میں پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ نے ٹویٹ کی جس میں کہا گیا کہ’ اور آپ پیچھے ہٹنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ایک شرط تھی کہ معصوم مظاہرین کی ’شہادت‘کے حوالے سے آپ کی جانب سے جرم کو تسلیم کیا جائے اور جرم کو تسلیم کیے جانے کے بعد ہی بات چیت شروع کی تھی۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مقامی افراد نے جمعے کو مبینہ طور پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت کے خلاف میرانشاہ بازار میں دھرنا دیا ہوا تھا اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ذمہ دار افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

بی بی سی کے نامہ نگاررفعت اللہ اورکزئی کے مطابق شمالی وزیرستان کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور احتجاج کرنے والے افراد کے درمیان اتوار کی رات گئے ہونے والے کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاجی دھرنا ختم کردیا گیا ہے اور مظاہرین کے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔

تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم نہیں بلکہ ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے اور مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں احتجاج دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

مذاکراتی ٹیم میں شامل شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے تقریباً 11 سے 12 مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔

Back to top button