بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل اور تحریک انصاف حکومت بنانے کے لیے ایک ہوگئے۔ متحدہ مجلس عمل اور پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی مخلوط حکومت کا حصہ ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات 2018 میں شاندار کامیابی سمیٹتے ہوئے 116 نشستیں حاصل کر لیں ہیں اور اب وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہیں ۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے 2018 کے انتخابات میں شکست کے بعد انتخابات کو دھاندلی شدہ قرار دے دیا اور تحریک انصاف کے خلاف کل جماعتی کانفرنس میں ہم خیال جماعتوں کے نام سے اتحاد تشکیل دے دیا گیا۔اس اتحاد کے روح رواں مولانا فضل الرحمان تھے جنہوں نے پہلے تو ان انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کردیا۔
اس کے بعد اتحادی جماعتوں کے منانے کے بعد نہ صرف مولانا فضل الرحمان نے اسمبلیوں میں جانا قبول کرلیا بلکہ اپنے بیٹے مفتی اسعد کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے بھی نامزد کروا لیا۔اب خبر یہ ہے کہ بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل ایک ہو گئے ہیں۔۔ایم ایم اے اور پی ٹی آئی دونوں جماعتیں بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ ہوں گی۔
اس موقع پر بلوچستان میں وزارتوں کے معاملات طے پا چکے ہیں۔مخلوط حکومت کو 65 میں سے 60 اراکین کی حمایت حاصل ہوگی۔اسپیکر ،وزارت اعلیٰ ،6 وزیر اور 2 مشیر بلوچستان عوامی پارٹی سے ہوں گے۔بی این پی مینگل اور ایم ایم اے کے پاس ڈپٹی اسپیکر کے عہدے سمیت 2 وزارتیں اور 3 مشیر کے عہدے ہوں گے۔اسی طرح اے این پی اور بی این پی عوامی کو ایک ایک وزارت ملنے کا امکان ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف بھی ایک وزارت حاصل کر سکے گی اور ایک مشیر بھی پاکستان تحریک انصاف سے ہوگا۔ یوں پہلی مرتبہ ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف محض حکومت کے لیے ایک ساتھ حکومتی بینچوں پر بیٹھیں گے۔