Site icon Daira Din Panah – City Portal

قانونی تلوار سے فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ختم کرنے کی امریکی سازش

امریکا کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کی مالی امداد بند کیے جانے کے بعد اب نام نہاد قوانین کے ذریعے فلسطینیوں کی اپنے علاقوں میں واپسی اور آباد کاری کے حق کو ختم کرنے کی نئی سازش شروع کی گئی ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق امریکی کانگریس میں ایک نیا بل پیش کیا گیا جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد کم سے کم ظاہر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ناقدین نے اس بل کو فلسطینیوں کے حق واپسی کوناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا ہے۔امریکی کانگریس میں یہ نیا بل ری

پبلیکن پارٹی کے رکن ڈوگ لامبرون نے پیش کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے جنگ کے بعد چھ لاکھ فلسطینیوں کی واپس ان کے علاقوں میں آباد کاری اور مہاجرین کی مالی کفالت کے لیے اونروا ایجنسی قائم کی۔ ستر سال گذرنے کے بعد دنیا بھر میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 53 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی دوسری اور تیسری نسل بھی پناہ گزین قرار دی جا رہی ہے۔ ان پر بھاری بجٹ صرف ہو رہا ہے۔ انہی کی وجہ سے پناہ گزینوں کا نہ ختم ہونے والا مسئلہ پیدا ہوا۔ لہٰذا دوسری اور تیسری نسل میں شامل فلسطینیوں کو پناہ گزین شمار نہ کیا جائے۔اْنہوں نے تسلیم کیا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لے قائم کردہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی اونروا کو سیاسی اور اقتصادی طورپر اس لیے کمزور کیا جا رہا ہے تاکہ وہ کم سے کم فلسطینی پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھائے۔ ان کے نئے مسودہ قانون کا مقصد یہ ہے کہ پناہ گزینوں کا ’اسٹیٹس‘ صرف ان فلسطینیوں کو دیا جائے جو 1948 کی جنگ میں فلسطین سے نکالے گئے۔ ان کی اولاد اور دوری اور تیسری نسل کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ اسی طرح ان فلسطینیوں کو بھی پناہ گزین قرار نہ دیا جائے جو دوسرے ملکوں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں۔ ایسی صورت میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے 50 لاکھ ڈالر کی رقم ہی کافی رہے گی۔

Exit mobile version