حضرت علی المرتضی کا شمار عشرہ مبشرہ السابقون الاولون میں ہوتا ہے۔بچوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے آپ ؓ کی بہادری بے مثل تھی ۔بڑے بڑے دشمن اسلام آپؓ کے نام سے کانپتے تھے۔آپؓ فاتح خیبر ہیں۔بیتِ رضوان میں شامل ہوئے اور اصحاب الشجرہ کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے۔جس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت دی ہے۔ایک مرتبہ آپﷺنے آپؓ سے فرمایا علی میں تجھے بتاؤں کہ لوگوں میں سب سے بدبخت لوگ کون ہیں پھر ارشاد فرمایا ایک وہ شخص جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں دوسرا وہ شخص جو تیرے چہرے اور داڑھی کو تیرے خون میں ڈبودے گا۔
حضرت علی ؓ کی پوری زندگی اسلام کی خاطر مصائب و الام جھیلنے اور سختیاں برداشت کرنے سے عبارت ہے۔مدینہ میں آپؓ کو نبی پاک ﷺنے اپنا مواخاتی بھائی قرار دیا۔آپ ﷺ نے آپؓکو اپنے ساتھ وہی نسبت دی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تھی ۔
حضرت علیؓ تیرہ رجب بروز جمعتہ المبارک تیس عام الفیل بمطابق۶۰۰ء ہجرت سے بائیس سال پیدا ہوئے۔ آپ کا نام علیؓ لقب حیدر اور کنیت ابو تراب ہے۔آپ کے والد کا نام عبدالمناف اور کنیت ابو طالب تھی۔آپ کی والدہ فاطمہ بنتِ اسد تھیں۔آپؓ حضور اکرمﷺکے چچا زاد بھائی تھے۔آپ ﷺ کے پیارے اور غمگسار چچا حضرت ابو طالب نے اگرچہ اسلام قبول نہیں کیا لیکن انہوں نے اپنے بیٹے حضرت علی ؓ کو کہا آپ حضرت محمدﷺ کی پیروی کرنا اور ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔
آپؓ کا تعلق بنی ہاشم خاندان سے تھا۔حرمِ کعبہ کی خدمت سالوں سے آپ کے خاندان کے ذمہ ہی چلی آ رہی تھی۔آپؓ نے بچپن میں حضور پاکﷺکی آغوش اور زیر سایہ محبت میں پرورش پائی۔اسی لیے گفتگو ،علم و حکمت اور دانائی میں لا ثانی تھے۔ہجرت کی رات جب آپﷺ کا گھر مبارک دشمنوں کے نرغے میں تھا تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لیٹ جانے کو کہا تاکہ کل ان لوگوں کی امانتیں واپس کی جا سکیں جو آپ ﷺ کی جان کے درپئے ہو کر مکان کو گھیرے ہوئے تھے۔ آپ کا قول مبارک ہے کہ اس رات میں پر سکون ہو کر سویا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں کل تک ضرور زندہ رہوں گا بصورت دیگر انسان کو اپنی زندگی کا لمحہ بھر کا بھی یقین نہیں۔
سنِ بلوغت کو پہنچے تو حضور پاکﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا نکا ح آپ ؓسے کر دیا اس طرح آپ ؓ کو دامادِ رسول کا مرتبہ بھی حاصل ہوا۔
مسائل و معلومات دین پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔آپ ﷺ کا فرمان ہے میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہے۔آپ ؓ کے فضائل و مناقب کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق مزّین و روشن ہیں۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور عبادت پر قوی یقین رکھتے تھے ۔آپ ؓکا قول مبارک ہے’’اے اللہ میں نے تیری عبادت تیری بہشت کے لالچ یا جہنم کے خوف سے نہیں کی بلکہ اس لیئے کی کہ میں نے تجھے ہی عبادت کے لائق پایا‘‘ بہت زیادہ رقیق القلب تھے ہمیشہ اللہ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ۔
انیس رمضان المبارک کو فجر کی نماز کے وقت خارجی عبد الرحمٰن بن ملجم نے زہر آلود تلوار سے حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا۔اکیس رمضا ن المبارک کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کا مرتبے پر فائز ہوکراپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔آپ کوفہ کے قریب نجف کے مقام آسودہ خاک ہیں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔آپ بائیس لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطہ پر چار سال نو ماہ تک خلافتِ اسلامیہ پر متمکن رہے۔