امریکا کے ذمے قرضوں کی مالیت اکیس ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے اور امریکی بانڈز خریدنے میں یورپی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی اب کم تر ہے۔ اس کے علاوہ ان قرضوں کی مالیت میں پچیس ہزار ڈالر فی سیکنڈ کی شرح سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پریشان کن ہےکہامریکا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں اپنی آبادی کے لحاظ سے فی کس بنیادوں پر اوسطاسب سے زیادہ عوامی قرضوں کا
سامنا ہے اور یہ قرضے بہرحال کبھی نہ کبھی واپس کیے جانے ہیں۔واشنگٹن حکومت کے ذمے واجب الادا قرضوں کی موجودہ مالیت 21 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے 210 کھرب یا 21 ہزار ارب ڈالر۔ یہی نہیں ان عوامی قرضوں کی مالیت میں ہر سیکنڈ بعد 25 ہزار ڈالر کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔امریکی ریاست کے ذمے اتنے زیادہ قرضوں کو مالیاتی ماہرین ایک ایسا انتہائی اونچا پہاڑ قرار دیتے ہیں، جس کی بلندی ہر لمحہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ جس رفتار سے ان قرضوں کی مالیت بڑھتی جا رہی ہے، ماہرین کے نزدیک صرف دو سال بعد ان رقوم کی مجموعی مالیت میں سالانہ ایک ٹریلن یا 1000 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہونے لگے گا۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق جو سرمایہ کار کسی ملک کے ٹریڑری بانڈز خریدتے ہیں، وہ دراصل اس ملک کے قرضوں کا کچھ حصہ اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے خرید لیتے ہیں ۔ اب امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنے قرضوں کے لیے خریدار نہیں مل رہے اور ماہرین یہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ آیا اس بات پر واشنگٹن حکومت کو تشویش ہونا چاہیے؟