ترکی کا شمالی شام میں امریکا کے اتحادی کرد فورسز کے خلاف آپریشن دوسرے روز بھی جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر رہے ہیں جبکہ درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزین ایجنسی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آپریشن سے ترک-شام سرحد کے نزدیک آباد 5 لاکھ لوگوں کو خدشات لاحق ہیں۔
ترکی نے شام میں فوجی آپریشن کا فیصلہ 3 روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا تھا۔
ترک فوج کا کہنا تھا کہ ان کے طیارے اور فوج نے اب تک 181 ہدف کو نشانہ بنایا ہے۔
ترک وزیر خارجہ میولوت کاووسوگلو کا کہنا تھا کہ ‘ہماری فوج شمالی شام کی سرحد کے اندر 30 کلومیٹر تک جائے گی اور ان کا آپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا’۔
ترک حکام کا کہنا تھا کہ کرد جنگجوؤں نے ترکی کے سرحدی علاقوں میں درجنوں مارٹر گولے برسائے ہیں۔
شیلنگ کے بڑھنے کے ساتھ شام اور عراق کی سرحد کو ملانے والے پل پر گاڑیوں کا رش لگ گیا جہاں سے لوگ شیلنگ اور فضائی حملوں سے بچ کر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شامی کرد مراد حسن کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں گاڑیوں کی 4 لین تھیں اور ایک کلومیٹر طویل قطار لگی ہوئی تھی’۔
2 سرحدی صوبوں کے ترک حکام کا کہنا تھا کہ شام سے فائر کیے گئے مارٹر گولوں سے 6 شہری ہلاک ہوئے جن میں 9 ماہ کا بچہ اور 3 15 سال سے کم عمر بچیاں شامل ہیں۔
دوسری جانب شامی ایکٹوسٹ کے مطابق آپریشن کے آغاز سے اب تک 7 شہری اور 8 کرد جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
ترک صدر کا بیان
ترک صدر رجب طیب اردوان نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کے دوران شامی کرد جنگجوؤں کے 109 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے یورپی یونین کو خبردار کیا کہ انقرہ کے فیصلے کو شام میں مداخلت نہ کہا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کے لیے یورپ آنے کے لیے دروازے کھول دیں گے۔
دریں اثنا امریکی حکام کا کہنا تھا کہ کرد جنگجوؤں نے داعش کے خلاف اپنے تمام آپریشن ترک کرتے ہوئے ترک فوج کے خلاف لڑنے کا آغاز کردیا ہے۔
واضح رہے کہ نیٹو کا رکن ترکی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کو اپنی بقا کی جنگ کہتا ہے۔
امریکا کی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے ترکی کو اقوام متحدہ میں سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ کیلی کرافٹ نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس کے بعد کہا ہے کہ ‘اگر ترکی کے آپریشن میں شمال مشرقی شام میں موجود افراد کو تحفظ نہیں فراہم کیا گیا یا وہاں داعش موجود ہوئی تو اسے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے’۔
تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید وضاحت نہیں دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کے حملے کو ان کا غلط فیصلہ قرار دیا تھا۔
امریکی صدر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دے گا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے’۔
فرانس کا داعش مخالف اتحاد کا فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ
فرانس کے وزیر خارجہ جینز یویز لی ڈریان نے ترکی کے کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن پر بحث کے لیے داعش کے خلاف بننے والے اتحاد کا فوری اجلاس طلب کرلیا ہے۔
رائٹرز کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق ٹی وی چینل فرانس 2 سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 30 ممالک پر مشتمل اتحاد کو معاملے پر بحث کرنی چاہیے کیونکہ داعش صورتحال کا فائدہ اٹھا کر واپس اٹھ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں فرانس امریکا کا اہم ترین اتحادی ہے۔
یاد رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔
شام میں فوجی کارروائی کے تازہ سلسلے پر متعدد ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس سے خطے کے بحران میں اضافہ ہوگا، تاہم ترکی کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد خطے کو محفوظ بنانا ہے تاکہ لاکھوں مہاجرین کو شام واپس بھیجا جاسکے۔
خیال رہے کہ ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو دہشت گرد جو ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔