قریش کی نسل میں دس اشخاص نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا اور ان کی نسبت سے دس نام ور قبیلے وجود میں آئے، جس میں ایک عدی تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ انہی کی اولاد میں سے تھے۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے جو رسول اکرمؐ کے اجداد سے ہیں، اس طرح عمر بن خطاب ؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جا کر نبی کریمؐ سے جا ملتا ہے۔
آپؓ کی کنیت ابوحفص اور لقب فاروق ہے جو دربار رسالت مآبؐ سے عطا ہوا، یعنی کفر و اسلام میں امتیاز کرنے والا۔ آپؓ کو رحمت عالمؐ نے اپنے رب سے مانگا تھا۔ اس لیے فاروق اعظم ؓ مراد رسولؐ تھے۔ سن شعور میں داخل ہوئے تو روایتی طور پر اونٹ چرانے کی خدمت سپرد کی گئی جو عرب میں قومی شعار سمجھا جاتا تھا، بعد ازاں جوانی میں داخل ہوئے تو مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کی جن میں نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت تھی۔
آپؓ نے انساب کا علم اپنے والد سے حاصل کیا اور پہلوانی اور کشتی میں بھی کمال حاصل کیا۔ حضرت عمر ؓ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کر تے تھے، اس کے علاوہ گھڑسواری میں کمال رکھتے تھے اور گھوڑے پر اچھل کر سوار ہو تے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جِلد بدن ہوجاتے تھے۔ اسلام لانے سے قبل قریش نے آپؓ کو سفارت کا منصب دے رکھا تھا اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔
آپؓ نے پڑھنا لکھنا بھی سیکھ لیا تھا اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس دور میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ ان علوم و فنون سے فارغ ہوکر آپؓ فکر معاش میں مصروف ہوئے۔ عرب میں ذریعۂ معاش زیادہ تر تجارت ہی تھا، اس لیے آپؓ نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ خودداری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری اور معاملہ فہمی جیسے اوصاف آپؓ میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہوگئے تھے۔
عرب میں آفتاب رسالتؐ طلوع ہوا اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضر ت عمر ؓ کے گھرانے میں آپ کی بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے تھے اور خاندان کے معزز شخص نعیم بن عبداللہ ؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا،البتہ ابھی اسلام آپؓ کے دل میں گھر نہیں کر سکا تھا بل کہ عام سرداران قریش کی طرح آپؓ بھی اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی عداوت کا شکار تھے اور قبیلے کے جو لوگ اسلام لا چکے تھے، آپؓ ان کے سخت دشمن بن گئے۔
اسلام دشمنی کا یہ عالم تھا کہ ایک کنیز جو اسلام کے دامن سے وابستہ ہوچکی تھی اس کو بے تحاشا مارتے اور جب تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ اس کے علاوہ بھی جس پر زور چلتا زدوکوب کرنے سے دریغ نہیں کر تے تھے۔ ان تمام سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے تو آخر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باللہ) خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ پاک کردیں، تلوار کمر سے لگائے سیدھے رسول اللہ ﷺ کی طرف چلے۔ راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبداللہ ؓ ملے ۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: خیر تو ہے؟ بولے کہ محمد ﷺ کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ آپؓ فوراً چلے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں آپ کی آہٹ پا کر خاموش ہوگئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے۔
آپؓ نے بہن سے پوچھا: وہ کیا آواز تھی؟ بہن نے کہا: کچھ نہیں، بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوگئے اور جب بہن بچانے آئیں تو ان کی بھی خبر لی، یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ عمر جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔ ان الفاظ نے سیدنا عمر ؓ کے دل پر ایک خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے بدن سے خون رواں تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی اور فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ بہن نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر رکھ دیے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ طہٰ تھی۔ یہ وہ دور تھا جب رسول اکرمؐ دارارقم میں جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا پناہ گزیں تھے۔
سیدنا عمر ؓ آستانہ مبارک پر پہنچے اور دستک دی تو صحابہ ؓ کو تردد ہوا۔ سیدنا حمزہ ؓ نے کہا: آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓ اندر داخل ہوئے تو رحمت عالمؐ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: کیوں عمر کس ارادہ سے آیا ہے۔ آپؐ کی بارعب آواز نے ان کو لرزا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا: ایمان لانے کے لیے نبی رحمتؐ بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ ؓ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر بلند کیا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ آپؓ کے اسلام لانے سے قبل مسلمان اپنے مذہبی فرائض علانیہ ادا نہیں کرسکتے تھے اور بیت اللہ میں نماز ادا کرنا تو بالکل ناممکن تھا، سیدنا عمر ؓ کے اسلام کے ساتھ دفعتاً یہ حالت بدل گئی اور انہوں نے علانیہ اپنا اسلام ظاہر کیا۔
کافروں نے ابتدا میں ان پر بڑی شدت کی لیکن وہ ثابت قدمی سے مقابلہ کر تے رہے۔ یہاں تک کہ آپؓ نے رحمۃ اللعالمینؐ کی اقتداء میں بیت اللہ میں نماز ادا کی اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ کوئی غلط حرکت کر سکے۔ حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ نبوت کے چھٹے سال واقع ہوا۔ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوئی اور دعوت توحید و رسالت رفتہ رفتہ پھیلنے لگی۔ جیسے جیسے آوازۂ حق دور و نزدیک پھیلنے لگا تو کفار کی سختیوں میں بھی انتہائی شدت آگئی۔ یہ حالت پانچ چھے برس تک رہی۔ اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لیے رحمت عالمؐ نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ ہجرت کر جائیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اپنی ہجرت کو پوشیدہ نہ رکھا بل کہ فرمایا کہ جسے اپنے بچے یتیم کرانے ہوں یا سہاگنوں کو بیوہ کرانا ہو وہ میری راہ روک کر دیکھ لے۔
آپؓ نے مدینہ سے باہر قبا میں قیام فرمایا چوں کہ اہل اسلام یہیں پڑاؤ ڈال رہے تھے، آپؓ کے بعد اکثر صحابہؓ نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ خود جناب رسالت مآبؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور قبا میں تشریف لائے۔ یہاں آکر آپؐ نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام فرما دیا اور مہاجرین و انصار کے درمیان اسلام کی بنیاد پر مواخات قائم فرمائی اور انسانی تاریخ کی ایسی عظیم برادری تشکیل پائی جو مختلف النسل و قبائل افراد کے مابین مثال بن گئی کہ انصار مدینہ نے اپنے مکہ سے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں کے درمیان اپنی ہر شے مال و متاع برابر تقسیم کرلیے۔
سیدنا فاروق اعظم ؓ کی ساری زندگی ، جہاد اور حق و باطل میں فرق و امتیاز سے عبارت رہی ہے، زندگی میں بھی ہر قدم پر رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے اور روضۂ اقدس میں بھی آپؐ کے رفیق بننے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔