Site icon Daira Din Panah – City Portal

خان صاحب : یادر کھنا اگر آپ پر کبھی برا وقت آیا یا آپ کی حکومت خطرے میں پڑی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ۔۔۔۔ سہیل وڑائچ نے عمران خان کو معنی خیز مشورہ دے دیا

جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیر کو قومی اسمبلی کا پہلا دن تھا جہاں دلچسپ مناظر دکھائی دیئے، وہ سیاسی حریف جو انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے رہے وہ پیر کو آپس میں مسکراتے

اور ہاتھ ملاتے دکھائی دیئے، یہ خوشی اور مسکراہٹ آنے والے دنوں میں سیاسی ماحول میں بہتری کے اشارے دے رہی ہے، عمران خان خود بلاول بھٹو زرداری کے پاس گئے، عمران خان نے آصف زرداری سے بھی ہاتھ ملایا اور تصویر کھنچوائی، یہ خوشگوار لمحات ہیں مگر ایسے لمحات ہمیں 2013ء کی اسمبلی میں بھی دکھائی دیئے تھے مگر بعد میں صورتحال تبدیل ہوگئی، عمران خان نے پچھلی اسمبلی میں حلف اٹھایا تو نواز شریف اور اسپیکر قومی اسمبلی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہم فرینڈلی اپوزیشن ہی نہ بن جائیں، عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں دھاندلی کی بھی شکایت کی لیکن یہ بھی کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ جمہوری عمل متاثر ہو جبکہ مستقبل کیلئےچاہتے ہیں کہ انکوائری ہو، مگر بعد میں دھاندلی کی بنیاد پر عمران خان نے حکومت کیخلاف بھرپور مہم چلائی،2013ء میں انتخابات کے نتائج آنے کے بعد نواز شریف خود عمران خان کی عیادت کرنے اسپتال گئے، حکومت بنانے کے بعد بھی عمران خان اور نواز شریف کی بنی گالہ میں ملاقات ہوئی، صرف عمران خان ہی نہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی مثبت رویہ اختیار رکھا گیا تھا، یہ 2013ء کی اسمبلی کی ابتداء کا ماحول تھا لیکن پھر نواز حکومت نے پرویز مشرف کیخلاف ٹرائل کا آغاز کیا

تو سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی دکھائی دی، ملک کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی، اسمبلی اور سیاست میں چھائی ہوئی خوشگواریت بھی تبدیل ہونے لگی، عمران خان کا چار حلقے کھولنے کا مطالبہ شدت اختیار کرنے لگا، اسمبلی کے ایک سال بعد اگست 2014ء میں عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دیا لیکن بعد میں پیپلز پارٹی بھی نواز حکومت سے ناراض ہوگئی، پیپلز پارٹی کا الزام رہا ہے کہ ن لیگ پر برا وقت آیا تو انہوں نے حکومت کا ساتھ دیا مگر جب پیپلز پارٹی پر برا وقت آیا تو ن لیگ نے ان کا ساتھ نہیں دیا، اب ایک بار پھر سے اقتدار کی منتقلی کا عمل جاری ہے، امکان ہے کہ تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی جبکہ شہباز شریف لیڈر آف دی اپوزیشن بنیں گے، دلچسپ صورتحال ہوگی کہ لیڈرآف دی اپوزیشن نے لیڈرآف دی ہاؤس یعنی عمران خان پر ہتک عزت کے دو دعوے کیے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ ہم خیال جماعتیں بھی واضح کرچکی ہیں کہ مبینہ دھاندلی کے خلاف ان کا احتجاج پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جار ی رہے گا۔سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ سیاستدان ماضی سے سبق سیکھیں گے،

عموماً خرابیوں کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے، حکومت نے جھکنا یا کریڈٹ لینا ہوتا ہے، عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت ہمیشہ اپنی غلطیوں سے ہی گرتی ہے، نواز شریف کی حکومت بھی عمران خان کے دھرنوں سے نہیں اپنی غلطیوں سے گری تھی، پی ٹی آئی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کی غلطیاں دہرائیں تو ہر حکومت کی طرح اٹھارہ ماہ ہی چلے گی، حکومت نے عوامی مفاد کے کام کیے تو اپوزیشن کو موقع نہیں ملے گا۔سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب شاہ خاور نے کہا کہ نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو کچھ الزامات پر سزا ہوئی جبکہ ایک چارج سے بری کردیا گیا ایسی صورتحال میں سزا تو ان کی بہرحال ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحیح نکتہ اٹھایا ہے کہ جس الزام میں نواز شریف کو بری کیا گیا احتساب عدالت کے اس فیصلے کی حد تک نیب کو اپیل دائر کرنا چاہئے تھی، احتساب عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیل ہائیکورٹ کے دو ججوں پر مشتمل بنچ سنتا ہے، اپیل میں اگر احتساب عدالت کے فیصلوں میں کمزوریاں نظر آتی ہیں تو جج اوپن مائنڈ اور احتیاط کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں ، وہ سزا کو بحال بھی رکھ سکتے ہیں جبکہ ملزم کو بری بھی کرسکتے ہیں،

بہت سے کیس ایسے بھی ہیں جہاں احتساب عدالت نے سخت سزائیں دی لیکن ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ نے ملزمان کو بری کردیا، آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں اثاثوں کی مالیت کا تعین کرنا بھی ضروری ہوتا ہے، اس وقت چونکہ ضمانت کا کیس ہے اس لئے عدالت شہادت کا سرسری جائزہ لے گی ۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پیر کو نئی قومی اسمبلی میں نومنتخب اراکین قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا، پہلے اجلاس میں کئی نئے چہرے شریک ہوئے، بہت سے چہر ے بہت عرصے بعد اسمبلی واپس آئے، بہت سے چہر ے ایسے ہیں جو کئی انتخابات میں کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچتے رہے مگر اس بار وہ اسمبلی میں نظر نہیں آئے، دو سابق وزرائے اعلیٰ اس بار صوبائی کے بجائے قومی اسمبلی میں آگئے، ہماری تحقیقات کے مطابق قومی اسمبلی میں پیر کو 139 نئے چہرے نظر آئے ان میں 102اراکین براہ راست الیکشن جیت کر آئے ہیں جبکہ 37 ارکان مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوکر آئے ہیں، پہلی دفعہ قومی اسمبلی میں پہنچنے والوں کی اکثریت کا تعلق تحریک انصاف سے ہے ، یعنی تحریک انصاف اسمبلی میں نئے چہروں کو لانے میں سب سے اہم جماعت ثابت ہوئی، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 60 نئے ارکان پہلی بار کامیاب ہوکر قومی اسمبلی پہنچے،

اس طرح پہلی دفعہ قومی اسمبلی پہنچنے والے 13ارکان کا تعلق ن لیگ سے ہے، 16کا پیپلز پارٹی سے ہے، 8کا متحدہ مجلس عمل، 2کا ایم کیوا یم پاکستان اور ایک رکن کا تعلق ق لیگ سے ہے، کراچی سے تحریک انصاف کے منتخب ہونے والے 14میں سے 13ارکان پہلی بار اسمبلی پہنچے ، تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری بھی پہلی بار قومی اسمبلی کا حصہ بنے، مظفر گڑھ سے کامیاب پی ٹی آئی کی زرتاج گل بھی پہلی بار قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئیں، سابق اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور سابق صوبائی وزیرعلی امین گنڈا پور بھی اب قومی اسمبلی میں آگئے ہیں، پانچ سال تک خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک بھی قومی اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں، تحریک انصاف کے رہنما سابق چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو بھی پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے ہیں، قومی اسمبلی میں آنے والا سب سے اہم نیا چہرہ بلاول بھٹو زرداری کا ہے، وہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پارٹی تو چلارہے تھے مگر اب وہ باقاعدہ قومی اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بن جائیں گے، چیئرمین پیپلز پارٹی کی حیثیت سے ان کا قومی اسمبلی میں کردار اہم ہوگا، بلوچستان سے بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اور سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی بھی قومی اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں،

جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی بھی پہلی بار ایم این اے بنے ہیں، رانا ثناء اللہ بھی پہلی بار قومی اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں، اس کے علاوہ بہت سے چہرے ایسے ہیں جو طویل عرصے بعد پارلیمنٹ میں واپس آئے ہیں، ان میں سب سے اہم نام آصف علی زرداری کا ہے جو 1990ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اب تقریباً 28سال بعد ایک بار پھر سے قومی اسمبلی میں آگئے ہیں، شہباز شریف دس سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے مگر اب وہ قومی اسمبلی میں واپس آئے ہیں اس سے پہلے وہ 1990ء میں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں، اسی طرح سینئر سیاستدان فخر امام بھی دو دہائیوں کے بعد قومی اسمبلی میں واپس پہنچے ہیں، کچھ نام ایسے بھی ہیں جو ماضی کی کئی اسمبلیوں کا حصہ رہے مگر اب وہ قومی اسمبلی میں نظر نہیں آئیں گے، ان میں ایک بڑا نام سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کا ہے جو 1985ء سے قومی اسمبلی کی نشست جیتتے آئے ہیں مگر اس بار وہ ہار گئے، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بھی قومی اسمبلی میں نظرنہیں آئیں گے، انہوں نے ن لیگ میں شمولیت تو اختیار کرلی تھی مگر انہیں ٹکٹ نہیں ملا اس لئے انہوں نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا،

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکے ہیں، اسفندیار علی، محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیرپاؤ بھی قومی اسمبلی میں دکھائی نہیں دیں گے، تین دفعہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف بھی قومی اسمبلی نہیں آسکے، کچھ سیا ستد ا ن ایسے ہیں جو خود قومی اسمبلی میں نہیں پہنچے مگر ان کے رشتہ دار ضرور قومی اسمبلی میں نظر آئے، مولانا فضل الرحمٰن تو الیکشن ہار گئے لیکن ان کے بیٹے اسد محمود قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، سابق وزیرقانون زاہد حامد نے بھی انتخا با ت میں حصہ نہیں لیکن مگر ان کے بیٹے علی زاہد قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے زین قریشی دونوں ہی قومی اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں، آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں ایک ساتھ نظر آئیں گے، ن لیگ کے رہنما دانیال عزیز نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بن سکے مگر ان کی اہلیہ مہناز عزیز نے قومی اسمبلی کا حلف اٹھالیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں فیصلہ آچکا ہے جبکہ دیگر دو ریفرنسز کی احتساب عدالت میں سماعت جاری ہے جس کی ڈیڈلائن تیزی سے قریب آرہی ہے، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نے سزا کی معطلی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے جس کی پیر کو پہلی سماعت ہوئی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست کی سماعت کی، جسٹس اطہر من اللہ نے دورانِ سماعت کہا کہ فیصلے میں واضح ہے مالک مریم نواز نہیں نواز شریف ہیں اور لکھا ہے کہ مریم نواز نے اثاثے چھپانے میں والد کی معاونت کی ہے، ٹرائل کورٹ نے واضح کہا کہ جائیداد کے مالک نواز شریف ہیں، اس فیصلے پر کوئی تحفظات تھے تو نیب اپیل دائر کردیتا۔

Exit mobile version