پاکستان نے دہشت گردوں کے معاون مملک سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ذیلی ادارے ایشیاء4 پیسیفک گروپ (اے جی پی)کے لیے منی لانڈرنگ کے خلاف اٹھائے جانے والے تمام اقدامات سے متعلق حتمی رپورٹ اور ایکشن پلان تیار کرلیا۔وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کے مطابق پاکستان کی جانب سے ایک وفد چند دنوں میں اے جی پی کے مشترکہ ورکنگ گروپ سے ملاقات کرنے بینکاک روانہ ہو جائے گا۔ جس میں پاکستانی وفد منی لانڈرنگ کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دے گا۔ رپورٹ کی تشکیل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ
اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذیلی ادارے نے تیار کی ہے۔ واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ایمنسٹی اسیکم کا اعلان کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا تھا۔ایف اے ٹی ایف کی ارسال کردہ ای میل میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ ایسی کسی بھی اسیکم سے پہلے ایف اے ٹی ایف کو مطلع کرنے کی ضرورت تھی۔دوسری جانب پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تحفظات کا جواب دیا کہ ‘ایمنسٹی اسیکم میں ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں’ ہے۔اس حوالے سے ایک سرکاری اعلیٰ عہدے پر فائز افسر نے بتایا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ جون میں شروع ہوگا اور حکومت نے جو ایکشن پلان تیار کیا اس کے تحت پاکستان کو مزید ایک سال درکار ہے۔علاوہ ازیں ‘بینکاک میں جو بھی شرائط طے کی جائیں گے انہیں انتظامی سطح پر عملدرآمد کیا جائیگا’حکام کے مطابق ایکشن پلان کے نکات ایف اے ٹی ایف کے ساتھ زیر بحث ہوں گے تاہم اگلے مہینے تک تمام امور حمتی نوعیت اختیار کر جائیں گے۔ واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے۔ جو جی سیون (G۔7) ممالک کے ایما پر بنایا گیا کہ جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی نگرانی کرتا ہے تاہم پاکستان اس ادارے کا براہِ راست رکن نہیں ہے۔مذکورہ غیر سرکاری ادارہ کسی ملک پر پابندی عائد کرنے کے اختیارات نہیں رکھتا لیکن گرے اور بلیک کیٹیگری واضع کرتا ہے۔اس حوالے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے میڈیاکو بتایا کہ حکومت نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی معانت فراہم کرنے والوں کے خلاف متعدد اقدامات اٹھائے ہیں تاہم یہ سوال کرنا کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرے گا یا نہیں ‘یہ سوال سیاسی ہے ۔وزارت خزانہ کے ایک ذرائع نے انکشاف کیا کہ ‘ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اٹھائے تمام تحفظات کو دور کرنے کے لیے متعدد اجلاس ہوئے اور فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ تاحال 300 رپورٹ تشکیل دے چکا ہے اور ان تمام رپورٹس میں کوئی دہشت گردی سے متعلق حوالہ موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ فروری کے وسط میں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ قوانین میں سختی اور انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ‘غیر موثر حکمت عملی’ ہونے کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں امریکا، پاکستان کو عالمی دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں ناکام ہونے والی ریاست کی فہرست میں شامل کرنے کی قرارداد پیش کرے گا۔ پاکستان کے خلاف امریکی قرارداد کو برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حمایت بھی حاصل ہے واضح رہے 28 فروری کو ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پاکستان کا نام رواں سال جون میں شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گزشتہ روز دفتر خارجہ میں جاری اجلاس کے اندر اگلے ہفتے بینکاک میں اے جی پی کے مشترکہ ورکنگ گروپ کے ساتھ ممکنہ مذاکرات سے متعلق نکات پر حتمی تبادلہ خیال ہوا۔خیال رہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں جون میں شامل کیے جانے کا فیصلہ ہوگا تاہم جمعہ کو ہونے والا اجلاس آخری تھا۔