انتخابات کیوں ملتوی نہیں ہو رہے؟
پاکستان میں انیس سو ستر سے اب تک جو دس عام انتخابات ہوئے ہیں ان میں سے علاوہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے انتخاب کے سب کے سب اکتوبر تا مارچ کے سرد یا معتدل موسم میں ہوئے ۔صرف دو بار انتخابات کی اعلان کردہ تاریخوں میں جائز وجوہات کے سبب رد و بدل ہوا ۔
جیسے انیس سو ستر کے قومی و صوبائی انتخابات پانچ اور دس اکتوبر کو ہونا تھے لیکن مشرقی پاکستان میں تباہ کن سمندری طوفانوں کے سبب وہ دو ماہ بعد سات اور سترہ دسمبر کو منعقد ہوئے۔
دو ہزار آٹھ کے انتخابات آٹھ جنوری کو ہونے تھے مگر ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی تاریخ اٹھارہ فروری تک بڑھانا پڑی۔
رف ایک بار ایسا ہوا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا مگر سیاسی ہوا کا غیر موافق رخ دیکھ کر احتساب کے بہانے انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیئے گئے۔ وہ انتخابات جنرل ضیا کے سینے پر ہاتھ رکھ کے نوے روز کے وعدے کے تحت اٹھارہ اکتوبر انیس سو ستتر کو منعقد ہونے تھے ۔اس وعدے کو آٹھ برس بعد فروری انیس سو پچاسی میں غیر جماعتی کپڑے پہنا کر پارلیمانی جمہوریت کے منہ پر مارا گیا۔
پچیس جولائی کو جو گیارہویں عام انتخابات ہونا قرار پائے ہیں۔ان کو آگے پیچھے کرنے کی بہت سے حلقوں کو آرزو تو ہے مگر کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل پا رہی۔
سب سے پہلے اپریل میں معروف طوطا فال ماہر شیخ رشید احمد نے پیشگوئی کی کہ انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہے۔اب صورت یہ ہے کہ انتخابات تو ہوتے نظر آ رہے ہیں مگر شیخ رشید نظر نہیں آ رہے۔
جب انتخابی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب جا کے بلوچستان کے وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی کو بھی یاد آیا کہ جولائی میں تو شدید گرمی ہوتی ہے۔حج کا سیزن بھی پڑ رہا ہے لہذا انتخابات موسم اچھا ہونے تک ملتوی کر دیئے جائیں۔ کسی نے لقمہ دیا کہ گرمی میں ووٹر روزہ رکھ سکتا ہے ، حج پر جا سکتا ہے ۔ بس ووٹ ہی نہیں دے سکتا ۔
جب پچھلے عام انتخابات مئی میں ہوئے تھے تو بلوچستان میں ایک ایک لاکھ سے زائد ووٹوں کے حلقوں میں کیا موسم کی سختی کے سبب صرف پانچ سو ، سات سو ووٹ پڑے تھے ؟
ایک کوشش خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلی پرویز خٹک کی جانب سے ہوئی۔انہوں نے جاتے جاتے الیکشن کمیشن کو لکھ مارا کہ اب جب کہ صوبے میں ضم ہونے کے بعد قبائیلی علاقوں کے لیے صوبائی اسمبلی میں اکیس اضافی نشستیں مختص ہو گئی ہیں تو ان نشستوں پر بھی پچیس جولائی کو انتخاب ہونا چاہیے ورنہ ان علاقوں میں احساسِ محرومی بڑھے گا اور بدامنی کا بھی خدشہ ہے۔
حالانکہ پرویز خٹک کی تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے جس بل کے حق میں متفقہ ووٹ دیا اس کے مطابق ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے اس کے بعد صوبائی انتخابات ۔اس وقت تحریکِ انصاف کو فاٹا کے آسمان پر ایسا کوئی احساسِ محرومی نظر نہیں آیا جو انضمام کے صرف ایک ہفتے بعد پرویز خٹک کو نظر آ گیا ۔
ہاں پچیس جولائی کے انتخابات کی تاریخ آگے بڑھ سکتی ہے اگر خیبر پختون خوا ، پنجاب اور سندھ میں دو ہزار دس جیسا سیلاب آ جائے جس میں بیس فیصد پاکستان زیرِ آب آ گیا تھا اور لگ بھگ تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ۔
انتخابات تب بھی آگے بڑھ سکتے ہیں اگر اعلی عدالتیں کم ازکم ایک تہائی نئی انتخابی حلقہ بندیوں کو چلینج کرنے پر کالعدم قرار دے دیں اور سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کو برقرار رکھے۔
یہ انتخابات تب بھی آگے بڑھ سکتے ہیں اگر کوئی صفِ اول کا رہنما خدانخواستہ دھشت گردی کی زد میں آ جائے۔
مگر جولائی میں ہونے والے انتخابات کا فائدہ دو ہزار تئیس میں جا کر ہوگا جب ستمبر اکتوبر میں الیکشن ہوں گے۔ تب نئے زمانے اور نئے بہانے بھی ہوں گے۔