آدھے سر کا درد: وہ بیماری جس کی نہ تو کوئی حتمی وجہ اب تک سامنے آ سکی اور نہ ہی علاج
دردِ شقیقہ کو صرف درد سمجھنا اب پرانی بات ہو چکی ہے۔ جہاں عام طور پر سر درد کو برداشت کیا جا سکتا ہے وہیں دردِ شقیقہ بہت شدید ہوتا ہے اور بعض اوقات آپ کو شدید کمزوری کا شکار کر دیتا ہے۔ اس بیماری کی کوئی حتمی وجہ اب تک سامنے نہیں آ سکی ہے اور نہ ہی اس کا علاج۔
شاید یہ تھوڑا حیران کن ہے کہ دنیا کے 195 ممالک میں صحت کے حالات پر کیے گئے سب سے بڑے سروے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سنہ 1990 سے سنہ 2016 تک ہر برس دردِ شقیقہ معذوری کے ساتھ زندگی بسر کیے گئے برسوں میں دوسرا بڑا عالمی اعانت کار رہا ہے۔
اس کی معاشی قیمت بھی بہت زیادہ ہے، اندازے کے مطابق ہر سال صرف برطانیہ میں اس درد کی وجہ سے ڈھائی کروڑ دن کی چھٹی لی جاتی ہے لیکن صحت اور معاشی بوجھ کے مقابلے میں دردِ شقیقہ دنیا کی سب کم فنڈز رکھنے والی بیماری رہی ہے۔
یہ بیماری خواتین میں زیادہ عام ہے۔ عام طور پر ہر 15 مردوں میں سے ایک کے مقابلے میں یہ ہر پانچ میں سے ایک عورت میں پائی جاتی ہے۔
وجوہات واضح نہیں ہیں تاہم اپریل 2018 میں ایریزونا یونیورسٹی میں کی گئی مادہ اور نر چوہوں پر تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ شاید اس کی وجہ ایسٹروجن کی سطح اور سوڈیم پروٹون ایکسچینجر NHE1 کی نچلی سطح کے مابین تعلق ہو سکتی ہے۔
ریسرچر ایملی گیلوے وضاحت کرتی ہیں ’ہمارے نتائج کی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین دردِ شقیقہ کا زیادہ شکار ہوتی ہیں کیونکہ جنسی ہارمونز کا بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ این ایچ ای ون میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔‘
لیکن جب ریسرچ اور فنڈنگ کی بات آتی ہے تو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں دردِ شقیقہ پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔
بہت زیادہ معاشی اخراجات کے باوجود دردِ شقیقہ کو یورپ میں کسی بھی اعصابی بیماری کے مقابلے بہت ہی کم فنڈز دیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں جہاں دردِ شقیقہ سے اندازاً 15 فیصد افراد متاثر ہوتے ہیں وہاں سنہ 2017 میں تحقیق کے لیے دو کروڑ 20 لاکھ ڈالر دیے گئے۔ اس سے تقریباً نصف لوگوں کو متاثر کرنے والی بیماری دمے کے لیے اس سے 13 گنا زیادہ رقم یعنی 28 کروڑ 60 لاکھ ڈالر اور اس سے دو تہائی لوگوں کو متاثر کرنے والی بیماری ذیابیطس پر تحقیق کے لیے 50 گنا زیادہ خرچ کیے گئے۔
مگر یہاں اس بات کا اعادہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ذیابیطس اور دمہ مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔
جب اس بیماری پر تحقیق کی جاتی ہی تو یہ بسا اوقات طب کے دیگر شعبوں میں ہونے والی تحقیق میں دیکھے گئے رجحان سے متاثر ہو جاتی ہے، زیادہ تحقیق نر جانوروں پر کی گئی ہے بھلے ہی خواتین آدھے سر کے درد سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
خواتین میں دردِ شقیقہ کی ہمہ گیری کو مدِنظر رکھیں، تو بظاہر اسے نظرانداز کرنا ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ڈاکٹر کیوں خواتین میں درد کو زیادہ مسئلہ تصور نہیں کرتے۔ شاید یہ دردِ شقیقہ اور ذہنی بیماریوں کے اندر تاریخی اور صنفی تعلق کا عکاس بھی ہو۔
تاریخ
دردِ شقیقہ انسانی تاریخ میں ریکارڈ کی گئی قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ 1200 قبلِ مسیح کی قدیم کتابوں میں بھی دردِ شقیقہ جیسی تکلیف کا تذکرہ ہے۔ مشہور یونانی طبیب بقراط نے اس بیماری کے ساتھ بینائی کے متاثر ہونے اور الٹیوں کے منسلک ہونے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
مگر دردِ شقیقہ کی اصل دریافت کا سہرا عموماً قدیم یونانی ڈاکٹر ایریٹائیس کو دیا جاتا ہے جو کیپاڈوچیہ سے تعلق رکھتے تھے۔
انھوں نے دوسری صدی میں بالکل درست انداز میں اس درد کے یکطرفہ ہونے اور علامات سے خالی اوقات کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ (درحقیقت دردِ شقیقہ کا انگریزی نام مائگرین یونانی اصطلاح ہیماکرینیا سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی آدھی کھوپڑی کے ہیں۔)
تاریخی طور پر دردِ شقیقہ کی وجوہات اور اس کا علاج توہم پرستی کے ساتھ گندھا ہوا رہا ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں کئی مشتبہ قسم کے علاج سامنے آئے جن میں حجامہ، عملیات اور کنپٹی میں سوراخ کر کے لہسن کا ٹکڑا رکھنا شامل ہیں۔
کچھ طبی ماہرین دردِ شقیقہ کے علاج کے لیے ٹریپینیشن یعنی کھوپڑی میں سوراخ کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ یہ خوفناک عمل ان لوگوں کے اندر سے بدروحیں نکالنے کے لیے کیا جاتا جو ممکنہ طور پر جنات کے اثرات کے بجائے کسی ذہنی بیماری سے متاثر ہوتے اور یہی دردِ شقیقہ اور ذہن کے درمیان پہلے تعلق میں سے ایک ہے۔
ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر 19ویں صدی میں نوٹ کیا تھا کہ خواتین میں دردِ شقیقہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس بیماری کا تعلق ذہن سے ہے اور انھوں نے اسے ‘نچلے طبقوں کی ماؤں’ کی بیماری قرار دیا جن کے ذہن ان کے مطابق روز مرّہ کے کام، کم نیند، بار بار دودھ پلانے اور غذائی قلت ک وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔
شدید سر درد سے متاثر خواتین کا اکثر مذاق اڑایا جاتا اور انھیں ہسٹیریا کا شکار قرار دیا جاتا۔ اسی وجہ سے ‘اعصابی خلل’ کے بدنما داغ نے جنم لیا جو آج تک پایا جاتا ہے۔
رٹگرز یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر جوآنا کیمپنر کا کہنا ہے کہ ‘ایک طویل عرصے تک دردِ شقیقہ کو جدید لگژری کا نتیجہ تصور کیا جاتا تھا، یعنی ایسی چیز جو اونچے طبقے کے مرد و خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس ماحول میں پلنے والوں کے بارے میں تصور کیا جاتا تھا کہ وہ نازک اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔
‘ظاہر ہے کہ خواتین کے بارے میں مانا جاتا کہ وہ دانشمندانہ کام کی صلاحیت کم رکھتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے نازک اعصابی نظام فوراً شدید دباؤ کا شکار ہو جاتے۔‘
اور یہ بات واقعی سچ ہے کہ سر درد کے جدید طب کے بانی امریکی ماہرِ اعصاب ہیرلڈ جی وولف نے دردِ شقیقہ کے شکار مردوں اور خواتین کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ ان کے نزدیک مرد زیادہ پرعزم اور کامیاب ہوتے ہیں (اور انھیں دردِ شقیقہ صرف تب ہوتا جب وہ تھکاوٹ کے شکار ہوتے) مگر خواتین کو دردِ شقیقہ تب ہوتا ہے کیونکہ وہ نسوانی کردار قبول کرنے میں مشکل کی شکار ہوتیں، خاص طور پر جب بات سیکس کرنے کی آتی۔
وولف کا کہنا تھا کہ ان کی خواتین مریض سیکس کو ’زیادہ سے زیادہ بس شادی شدہ زندگی کی ایک معقول ڈیوٹی سمجھتیں۔ کئی مواقع پر تو اسے ناخوشگوار قرار دیا جاتا اور اس سے نفرت کی جاتی۔‘
کیمپنر کا مزید کہنا ہے کہ ’20 ویں صدی کے اختتام تک دردِ شقیقہ تو پاگل پن کی شکار گھریلو خاتون کے لیے متبادل لفظ بن گیا۔ یہاں تک کہ کئی متبادل الفاظ کی کتب میں مائگرین کا متبادل ‘سپاؤز’ یعنی شریکِ حیات لکھا گیا ہے۔‘
ذہنی معاملات
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سر درد کی تکلیف اور ذہنی امراض کے درمیان بظاہر ایک تعلق ہے۔
کئی سائنسی تحقیقوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دردِ شقیقہ درحقیقت عموماً مختلف نفسیاتی عوارض سے منسلک ہیں۔ سنہ 2016 میں ہونے والی ایک ریویو تحقیق میں دردِ شقیقہ اور بائے پولر ڈس آرڈر کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا جبکہ دردِ شقیقہ سے متاثر لوگوں کے جنرل اینگزائٹی ڈس آرڈر سے متاثر ہونے کا خطرہ 2.5 گنا زیادہ تھا، جبکہ ڈپریشن کے شکار افراد میں دردِ شقیقہ کا امکان تین گنا زیادہ تھا۔
ایک اور تحقیق نے پایا گیا کہ دردِ شقیقہ سے متاثر ہر چھے میں سے ایک فرد نے زندگی کے کسی نہ کسی موقعے پر خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا۔ (عام آبادی میں ہر 10 میں سے ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں خودکشی کے خیالات آتے ہیں)۔
سر درد پر تحقیق کرنے والے ادارے ڈینش ہیڈایک سینٹر کے ہیومن مائگرین ریسرچ یونٹ کے ڈائریکٹر اور نیورولوجی کے پروفیسر مسعود آشینہ کہتے ہیں کہ ’مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ جب آپ کو دردِ شقیقہ جیسا انتہائی عام مرض ہو، تو اس کا دوسرے امراض سے تعلق ہونے کا امکان بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔‘
وکٹورین دور کے ڈاکٹروں کے ’نازک اعصاب‘ کی وجہ سے دردِ شقیقہ ہونے کے نظریے کے برعکس دردِ شقیقہ خراب ذہنی صحت کا سبب بن سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے انسٹیٹیوٹ فار لائف کورس اینڈ ایجنگ کے ڈائریکٹر ایسمے فُلر تھامسن جو خود دردِ شقیقہ کے خودکشی سے تعلق پر تحقیق کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ’جب کسی شخص کو معلوم نہ ہو کہ دردِ شقیقہ کا حملہ کب ہو جائے گا اور یہ ملازمت اور خاندانی ذمہ داریوں کو کیسے متاثر کرے گا، تو یہ حیران کن نہیں کہ زیادہ ذہنی دباؤ ہو سکتا ہے۔‘
دوسری جانب ڈپریشن بے یار و مددگار ہونے کے احساس سے شدید ہو جاتا ہے جسے دردِ شقیقہ کے شکار افراد کو اکثر سامنا رہتا ہے۔
اتنی بڑی آبادی کے دردِ شقیقہ سے متاثر ہونے کے باوجود یہ عارضہ حیران کن طور پر کم ہی سمجھا گیا اور زیرِ تحقیق آیا ہے۔ آشینہ کہتے ہیں کہ ’نیورولوجی اور معاشرے میں کئی لوگ دردِ شقیقہ کو بے ضرر مرض سمجھتے ہیں کہ یہ کینسر یا پارکنسن عارضہ تھوڑی ہے۔ لیکن اگر آپ اس کے ذاتی اور عوامی اثرات کا جائزہ لیں تو دردِ شقیقہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘
امریکی ریاست ایریزونا کے شہر سکاٹس ڈیل کے مایو کلینک ہسپتال میں نیورولوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر امال سٹارلنگ کہتی ہیں کہ کچھ ماہرین صحت اسے ‘اصل نیورولوجی’ نہیں سمجھتے۔ ماہرینِ سر درد نے اس لیے اپنی پریکٹس کا جواز پیش کرنے اور دوسروں کو اس بات پر قائل کرنے میں مشکلات کا سامنا کیا ہے کہ اس کام کے لیے فنڈنگ ضرورت ہے، عیاشی نہیں۔
اور اکثریتی طور پر ایک ’نسوانی‘ عارضے کو سنجیدگی سے لینے میں کچھ پریشانی شاید صنفی تعصب بھی ہو۔ عمومی طور پر خواتین کو اپنے درد کو سنجیدگی سے لیے جانے یا درست طبی تشخیص میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عام عارضہ
ماہرین کے مطابق دردِ شقیقہ کے مریضوں کی بڑی تعداد کے ہونے کا مطلب ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کو اس میں مہارت ہونی چاہیے۔ جیسے کہ کیمپنر نے اپنی کتاب ناٹ ٹونائٹ: مائگرین اینڈ پولیٹکس آف جینڈر اینڈ ہیلتھ کے لیے جس ذریعے سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ ’سردرد نیورولوجی کے مریضوں میں سب سے عام مگر نیورولوجی میں سب سے کم پڑھایا جانے والی علامت ہے۔ یہ ایسا ہے کہ آپ کسی الیکٹریشن کو تربیت دیں مگر برقی بلب کے بارے میں بتائے بغیر۔‘
خوش قسمتی سے ایک نیا علاج شاید تیار ہونے والا ہو۔ ایرینومیب نامی انجیکشن جسے ایک ماہ میں ایک مرتبہ لگایا جانا ہو گا، وہ دماغ کے ایک ایسے ریسیپٹر، یعنی حسی خلیوں کو بلاک کر دے گا جو دردِ شقیقہ کے اٹیک کی وجہ بنتا ہے۔
امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے مئی 2018 میں سی جی آر پی ریسیپٹر پر اثرانداز ہونے والی ایک ایسی ہی دوائی کی منظوری دی تھی۔
سٹارلنگ کہتی ہیں کہ ’اہم بات یہ ہے کہ یہ نئی دوائی دردِ شقیقہ کے علاج کے لیے تیار کی گئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ یہ کسی اور بیماری کے لیے بنائی گئی ہو اور بعد میں پایا گیا ہو کہ یہ دردِ شقیقہ میں بھی مددگار ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کسی دوا کو خصوصاً کسی مرض کے لیے بنایا جائے تو اس کے زیادہ مؤثر ہونے کا امکان زیادہ اور ’آف ٹارگٹ‘ زہریلے پن ہونے کا امکان کم ہوتا ہے جس سے ضمنی اثرات یا سائیڈ افیکٹس کم ہو جاتے ہیں۔‘
مجھے بھی دردِ شقیقہ کے لیے بیٹا بلاکر دوائیں تجویز کی گئی ہیں اور میں اس سے مکمل طور پر متفق ہوں۔ میری دوائی جو کچھ ماہ کے دوران روزانہ تین مرتبہ کھانی ہے، اس کا اصل مقصد انجائنا اور ہائی بلڈ پریشر کا علاج ہے مگر ڈاکٹروں نے یہ پایا کہ یہ دردِ شقیقہ کو بھی روکتی ہے۔
مگر یہ دردِ شقیقہ کے متاثرین کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ اور بھلے ہی خصوصی طور پر دردِ شقیقہ کے لیے بنائی گئی دوا کے بھی سائیڈ افیکٹس ہوں گے مگر بیٹا بلاکرز کے سائیڈ افیکٹس کی ایک خوفناک فہرست ہے جس میں اضافی تھکان اور غنودگی شامل ہے، اور اگر آپ انھیں اچانک لینا بند کر دیں تو ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔
یہ علاج دیگر جدید برقی اور مقناطیسی طریقہ ہائے علاج میں شامل ہیں جن میں دستی ڈیوائسز کے ذریعے دماغ میں مقناطیسی لہریں بھیجی جاتی ہیں تاکہ اعصابی خلیوں کی برقی حالت میں تبدیلی لائے جائے اور ہائپر ایکسائٹییبلٹی یعنی ان میں اچانک تیز حرکت پیدا ہونے کو روکا جا سکے۔
دردِ شقیقہ کے بغیر چھ ماہ گزار لینے کے بعد اب میں بیٹا بلاکرز کی اپنی خوراک کم کر رہی ہوں۔ میرا مقصد دواؤں کا استعمال یکسر ترک کرنا ہے۔ مگر حال ہی میں مجھے دردِ شقیقہ کا ایک اور اٹیک ہوا، اور دو ماہ پہلے ہی مجھے دل کے دورے کے شبہے میں ہسپتال لے جایا گیا۔ شکر ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا پر مجھے اب دردِ شقیقہ کے ایسے علاج کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے جو میرے اہم اعضا کو متاثر نہ کرے۔
امید ہے کہ ایسی ایجاد مستقبل قریب ہی میں ہو گی۔