لاہور (ویب ڈیسک ) بلوچستان سے گرفتار کئے جانے والے بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کا نام تو پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے ،لیکن شاید ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کو گرفتار کرانے میں آئی ایس آئی کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسامہ لاشاری کا اہم ترین کردار ہے جس نے اپنا مشن پورا کرنے
کے لئے کلبھوش یادیو سے حاصل کی جانے والی معلومات کے بعد دوسرے دشمن عناصراور جاسوسوںکا پیچھا شروع کردیا تھا اور ایک ایسے ہی واقعہ میں وہ شہید ہوگئے تھے ۔اسامہ لاشاری پاکستان کے ان قابل فخر سپوتوں کا سالار ہے جو اپنے وطن کی سرزمین کی حفاظت میں خوشی سے جان قربان کردیتے ہیں ۔ایک ایسا سرفروش کہ جس کا نکاح ہوچکا تھا اورشادی سے تین پہلے وہ جام شہادت پی کرامر ہوگیا،اسکی زندگی اور عزم ہر پاکستانی نوجوان کے لئے درس اک درجہ رکھتا ہے ۔اسامہ لاشاری کون تھا؟اس بارے بچپن سے ہی وہ مظلوم اور حق کے ساتھ کھڑا تھا ۔خاموش طبع اور گہری نظر رکھنے والا یہ بچہ ایک دن اپنی محویت میں دوسرے سکول کے بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ دیکھا پانچویں کلاس کے ایک طالب علم کو میٹرک کے سینئر طلبا نے گھیر رکھا ہے اور اسکی پٹائی کررہے ہیں ۔کوئی اس کم سن معصوم کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھا تو وہ کسی عقاب کی طرح اپنے سے بڑے بچوں پر جھپٹ پڑا،پہلے للکارا” چھوڑ دو اسکو “سینئرز نے اسے دیکھا اور جواباً قہقہہ لگایا ۔لیکن یہ قہقہے ان کے گلوں میں ہی دب کر رہ گئے ۔اس نے چشم زدن میں سینئرز کی درگت بنا ڈالی اور اپنے کلاس فیلو کو بچالایا ۔ہر کوئی حیران تھا کہ بظاہر خاموش رہنے والا یہ ملنسار سا پانچویں کلاس کابچہ اس قدر غضباک بھی ہوسکتا ہے کہ جو دوسروں کی لڑائی میں کود کر اپنی جان کا بھی خطرہ مول لیتا ہے ۔گھر واپس جانے سے پہلے والدہ تک اسکی آج کے کارنامے کی تفصیل پہنچ چکی تھی ” اسامہ یہ تم کیا کرتے پھرتے ہو ،تم نے اپنے سے بڑے لڑکوں کے ساتھ لڑائی کیوں لڑی“مما وہ
ایک کمزور بچے کو ماررہے تھے “ ادب سے جواب دیا۔ تم کون سے جیمز بانڈ ہو ۔تم نے اچھا نہیں کیا “ مما نے ڈانٹ پلاکر کہا مما وہ سب مل کر اسکو ماررہے تھے ،مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا،میں نہ بچاتا تو کون بچاتا اسے “ والدہ نے اپنے لاڈلے کو اس دن بڑے غور سے دیکھا ۔اسکی رگوں میں بلوچوں کے لاشاری قبیلے کا گرم اور غیرت مند خون تھا ،مستونگ کیمٹی میں اسکا خمیر گندھا ہوا تھا اور اس پر یہ کہ وہ ایسے باپ کی اولاد تھا جس پر پاک فوج بھی فخر کرتی تھی ۔خون میں خاندانی غیرت و خدمت ،شجاعت اور عسکریت کوٹ کوٹ کر بھری تھی اسی لئے تو ضبط کردار کا مالک بھی تھا اور بچپن میں دوسروں سے منفرد بھی تھا ،ظالم کا ہاتھ روکنے میں وہ حق کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا ،نہ شرارتوں میں کسی سے لڑتا ،نہ کسی کو تنگ کرتا ،احساس ذمہ داری کوٹ کوٹ بھری تھی اس میں ۔بس ایک ہی خواب دیکھتا تھا کہ وہ کب بڑا ہو اور فوج میں چلا جائے …. لیکن فوج میں افسر بھرتی ہونے کا اسکا خواب اس وقت چکنا چور ہوگیا جب اسے ریجیکٹ کردیا گیا حالانکہ اپلائی کرنے سے پہلے اس نے سخت ترین محنت کی تھی۔کنٹونمنٹ میں رہتے ہوئے وہ عملی طور پر فوجیوں کی خوبیوں کو دیکھ کر اپنا چکا تھا لیکن کمیشنڈ افسر کے طور پر وہ فوج میں بھرتی نہ ہوسکا اور اسکو یہ غم کھائے چلایا گیا ۔فوج اسکا جنون تھا،شہادت اسکی تمنا تھی ۔1998 میں جب پی ٹی وی پر فوج کی ڈرامہ سیریل ”الف براو چارلی “ نشر ہورہی تھی تو وہ بڑے شوق اور انہماک سے اسکو
دیکھتا تھا ۔اس ڈرامہ کی وہ قسط جس میں کیپٹن گل شیر کو گولی لگتی ہے اور وہ شہید ہوجاتا ہے تو اسامہ کا چہرہ تمتا اٹھتاہے ۔اسکی اپنی عمر اس وقت گیارہ سال تھی ۔اپنے بھائیوں سے مخاطب ہوا اور کہا ”یارموت ہوتو ایسی ورنہ کیا فائدہ جینے کا “ اسامہ کا یہ جملہ اسکے نصب العین کا احاطہ کرتا ہے ۔کیا حسن اتفاق ہے کہ الفا براو چارلی کا کیپٹن گل شیر جس قسط میں شہید ہوا وہ بھی جولائی اگست کے دن تھے اور اٹھارہ سال بعد جب اسامہ لاشاری رتبہ شہادت پر فائز ہوا اس دن جولائی 2016کی 23 تاریخ تھی ،اسکی دعا ربّ الکریم نے اسی دن قبول کرلی تھی ۔ ان کے بھائی حنظلہ لاشاری مجھے بتارہے تھے ” بھائی خوبصورت اور جوان تھا لیکن بچپن سے وہ فوج کے عشق میں ایسا گرفتار ہوا کہ وہ جیتے جی فوج کی حرمت اور اپنے ملک کی حفا ظت میں لگا رہا ۔اس نے اپنی نیندیں وطن پر قربان کردی تھیں اور روز وشب یہی سوچتا اور کہتا تھا کہ بلوچستان کو اسی صورت دشمنوں سے بچایا جاسکتا ہے جب ہم جاگتے رہیں ،اسکو سونے سے زیادہ جاگتے رہنے سے محبت تھی اور یہ دیوانگی اسکو فوج نے دی ،خاص طور پر جب فوج میں کمیشنڈ افسر کے لئے منتخب نہ ہوسکا تو ایم بی اے کرنے کے بعد اس نے آئی ایس آئی کو جوائن کرکے اپنے خوابوں کو تعبیر دی “پانچ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر اسامہ لاشاری نے ماسٹرز کے بعد بھی فوج سے اپنا تعلق جوڑنے کی کوشش کی اور پھر آئی ایس آئی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر سلیکٹ ہوگیا ۔وہ عام نوجوانوں اور افسروں سے بہت مختلف تھا ۔
اسے محض گولیاں نہیں چلانی تھی ،دماغ بھی لڑانا تھا اور سماعت و بصر کی صلاحیتوں کو بیدار کرکے اپنے فرائض پر نگاہ رکھنی تھی۔اس میں ذہانت و پھرتی کے ساتھ ایسی جرات تھی کہ دوست اسکو جمیز بانڈ بھی بول دیتے تھے ۔بلوچستان میں جب بھارتی جاسوسوں نے اپنے پاوں جمانے شروع کئے تو اسامہ لاشاری کا فرض پہلے بھی بڑھ گیا ۔اسے انتہائی اہم اسائمنٹ دیں گئیں اور اس نے بڑی کامیابی سے آپریشن کرائے ۔بھارتی فوج کے افسر کلبھوش یادیو کی گرفتاری میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے بعد اسکا آئی ایس آئی کے قابل ترین افسروں میں شمار ہونے لگا اور پھر جب کلبھوشن یادیونے منہ کھولا اور اسے انٹیلی جنس ٹپس ملیں تو ایک روز اس نے ایک اہم ہائی پروفائل ٹارگٹ کی ریکی شروع کردی ۔اسے خبر مل چکی تھی اس ٹارگٹ نے بلوچستان کو اپنی ہائی وے بنا رکھا ہے اور اس پر ثبوتوں کے ساتھ ہاتھ ڈالان کاردشوار ہے ،دشمنوں نے کئی طرح سے خود کو کیموفلاج کیا ہوا تھا لیکن اسامہ لاشاری اس تک پہنچ گیا تھا ۔ٹارگٹ نے جب وہ سے بھاگنا چاہا تو اسامہ لاشاری بھی گاڑی لیکر اسکے پیچھے لپکا اور ہیڈکوارٹر کو میسج کردیا کہ وہ کلبھوشن یادیو کے ایک بڑے مہرے کو گرفتار کرنے والا ہے ۔لیکن دشمن اسامہ کی توقعات سے زیادہ پھرتیلا نکلااور اس نے گاڑی کو اس تیزی سے سڑکوں پر بھگانا شروع کیا کہ
اسامہ لاشاری نے بھی اپنی گاڑی کو پر لگادئے ،ٹائر سڑکوں پر چڑچڑاتے ہوئے شعلے اگلنے لگے ،اسامہ لاشاری کی نگاہیں اس وقت سٹیرنگ پر تھیں ،وہ اکیلا ہی تھا ،اسکی نگاہیں سڑک سے زیادہ دشمن کی گاڑی پرمرکوز تھیں ،ساتھ ساتھ وہ رپورٹ بھی کئے جارہا تھا لیکن شو مئی قسمت سے اچانک کیا ہوا کہ اسکی گاڑی ہوا میں اچھلی ۔یہ اسقدر زور دار جھٹکا تھا کہ اسامہ لاشاری ڈرائیونگ سے اچھل کر سڑک پر آگرااور اسکا سرزورسے پتھر پر لگا۔فرشتہ اجل نے فوراً اپنے شہید کو بازووں میں اٹھا یا ۔سڑک پر اسکی گاڑی قلابازیاں کھاتی دور تک چلی گئی اور وہ خود اللہ کے حضور پیش ہوگیا ۔اسکا مشن پھر بھی پورا ہوگیا تھا کیونکہ آئی ایس آئی نے اپنے اس شہید کی دی معلومات پر غیر ملکی جاسوسوں کو گرفتار کرلیاتھا اسامہ لاشاری کے بھائی حنظلہ لاشاری جو کہ ایک بینک افیسر ہیں ،مجھے بتارہے تھے ” بھائی کو اپنی منزل مل گئی تھی ۔اسکا نکاح ہوچکا تھا لیکن شادی تین ماہ بعد ہونے والی تھی ۔اس لئے کہ وہ انتہائی اہم مشن پر لگا ہوا تھا ۔وہ اپنے آپریشن کو چھوڑ کر شادی کے لئے فرصت کی چھٹی نہیں مانگ سکتا تھا ۔بھائی کی شہادت کی خبر سن کر ہم سب پر قیامت ضرور گزری لیکن میرے والد کے عالی عزم حوصلے نے سب کو حیران کردیا ۔انہوں نے صبر و ہمت سے اس غم کو برداشت کرنے کا سبق دیا
اور کہا ”کیا تم نہیں جانتے جب کوئی فوج میں جاتا ہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ شہید ہونے جارہا ہے ۔ پس تم سب جان لو کہ ہم سب کو معلوم تھا کہ اسامہ زندہ رہا تو غازی کے طور پر جانا جائے گا،اگر جان سے گیا تو شہید ہوگا ۔میرے بیٹے نے اپنے ملک قوم کی خاطر وہ قربانی دی ہے جس کا میں خود طلب گار تھا “حنظلہ لاشاری اپنے بھائی کے بہت قریب تھے ” بھائی میں جانثاری اور ایثار کا جذبہ بہت تھا ۔بچپن میں اگر ہم کوئی خطا کرتے اور اسکی سزا ملنا ہوتی تو ہمیں بچانے کے لئے ہماری ڈھال بن جاتے اور ہمارا جرم اپنے سر لے کیا کرتے تھے۔امی اور بہن سے دل کی باتیں کرتے مگر ہم سے دوستوں کی طرح رہتے ہوئے بھی بہت سی باتیں نہ کرتے ۔ہم کبھی کوئی بات پوچھتے تو عالمی حالات اور سٹریٹجک و ملٹری ایجنسیز کے بارے بہت سے باتیں کرتے ۔انہیں بلوچستان کے حالات دیکھ رک بہت دکھ ہوتا تھا ،کہا کرتے تھے کہ بلوچستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے ،اسکو بچانے کے لئے سخت ترین محنت کی ضرورت ہے اور جب تک میں زندہ ہو ،میں اپنی
سرزمین کو بچانے کے لئے پوری کوشش کروں گا ۔آخر بھائی نے اپنا وعدہ پورا کیا ،اسکی شہادت ہمارا فخر ہے الحمد اللہ “اسامہ لاشاری کا تعلق مستونگ بلوچستان سے تھا ۔وہ 9اکتوبر 1987 کو پیدا ہوئے لیکن والد فوج میں تھے جس کی وجہ سے ان کی تعلیم و تربیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوئی ۔آئی ایس آئی میں اسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہونے کے بعد انکو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا تاہم شہادت سے پہلے انکو مستونگ کے علاقے میں اہم فرض سونپا گیا تھا ۔اسامہ لاشاری کی شہادت کے بعد مستونگ کو ملک دشمن عناصر نے خاص طور پر اپنا ٹارگٹ بنائے رکھا ہے ۔اسامہ لاشاری نے جو زخم ملک دشمنوں کو لگائے تھے شاید وہ اسکا بدلہ چکا رہے ہوں لیکن اسامہ لاشاری نے دشمنان وطن کے گرد کے جو سرخ دائرہ لگا کر انکی نشاندہی کردی تھی ،پاک فوج ان کی سرکوبی میں سرگرداں ہوچکی ہے ۔